تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے متعلق کہا تو اس نے عرض کی: اگر آپ موجود نہ ہوں تو کیا کروں؟ گویا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود نہ ہونے سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات لی تھی۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 3659) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو دلالت عقلی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ جب اس نے یہ جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انداز گفتگو سے معلوم کرلیا کہ وہ اس سے مراد میری موت لیتی ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی تلقین فرمائی۔ اس میں اگرچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کی صراحت نہیں۔البتہ زبردست قرینہ اور واضح اشارہ ضرور ہے، چنانچہ خواہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر استدلال کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7220) انھوں نے اس حدیث پر "خلافت" کا عنوان قائم کیا ہے۔
2۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا، یہ اس اشارے کے خلاف نہیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے سے مراد "نص صریح اور واضح نامزدگی" ہے، البتہ اشارات بے شمار ہیں جن کی وضاحت ہم کتاب الاحکام میں بیان کرآئے ہیں۔ واللہ أعلم۔