قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرُهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَدْ أَخْبَرَ النَّبِيُّ ﷺأَمْرَ الخَيْلِ وَغَيْرِهَا، ثُمَّ سُئِلَ عَنِ الحُمُرِ، فَدَلَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ تَعَالَى»: {فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ} [الزلزلة: 7] وَسُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الضَّبِّ فَقَالَ: «لاَ آكُلُهُ وَلاَ أُحَرِّمُهُ» وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضَّبُّ، فَاسْتَدَلَّ ابْنُ عَبَّاسٍ بِأَنَّهُ لَيْسَ بِحَرَامٍ

7360. حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَعَمِّي، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ: «إِنْ لَمْ تَجِدِينِي، فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ» زَادَ لَنَا الحُمَيْدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ كَأَنَّهَا تَعْنِي المَوْتَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

رسول اللہ ﷺنے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان کئے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت بیان فرمائی کہ ” جو ایک زرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا “ اور آنحضرت ﷺ سے ساہنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں خود اسے نہیں کھا تا اور ( دوسروں کے لیے ) اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا اور آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر ساہنہ کھا یا گیا اور اس سے ابن عباس ؓ نے استدلال کیا کہ وہ حرام نہیں ہے ( یہ بھی دلالت کی مثال ہے یہ حدیث آگے آرہی ہے ) تشریح :دلائل شرعیہ اصول شرع وہ دو ہیں قرآن اور حدیث اور بعضوں نے اجماع اور قیاس کو بھی بڑھا یا ہے لیکن امام الحرمین اور غزالی نے قیاس کو خارج کیا ہے اور سچ یہ ہے کہ قیاس کوئی حجت شرعی نہیں ہے یعنی حجت ملزمہ اس کے لئے کہ ایک مجتہد کا قیاس دوسرے مجتہد کو کافی نہیں ہے تو حجت ملزمہ دو ہی چیزیں ہوئیں کتاب اور سنت ۔ البتہ قیاس حجت مظہرہ ہے یعنی ہر مجتہد جس مسئلہ میں کوئی نص کتا ب اور سنت سے نہ پائے تو اپنے قیاس پر عمل کرسکتا ہے البتہ اجماع حجت ملزمہ ہو سکتا ہے بشر طیکہ اجماع ہو اگر ایک مجتہد کا بھی اس میں خلاف ہو تو اجماع باقی علماءکا حجت نہ ہوگا ۔ دلالت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شے جس میں کوئی خاص نص نہ وارد ہو اس کو کسی شے منصوص کے حکم میں داخلکرنا بد لالت عقل ‘ جس کی مثال آگے خود امام بخاری نے بیان کی ہے ( وحیدی )

7360.

سیدنا جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ انصار قبیلے کی ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کسی چیز کے متعلق آپ سے گفتگو کی، آپ ﷺ نے اسے کوئی حکم دیا تو اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر ؓ کے پاس آجانا۔“ حمیدی نے ابراہیم بن سعد سے یہ بیان کیا ہے: اس خاتون کی مراد گویا آپ ﷺ کی وفات تھی۔