تشریح:
اس حدیث میں ہمیں اختلاف سے ڈرایا گیا ہے اور اس کی نحوست سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اس کی موجودگی میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی خیرو برکت سے محرومی ہو سکتی ہے کہ جب کوئی شبہ پیدا ہو اور کسی اختلاف کا خطرہ ہو تو اس وقت قراءت ختم کر کے قرآن سے علیحدہ ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اختلاف سے ڈرانا ہے۔ قرآءت سے منع کرنا مقصود نہیں کیونکہ قرآن مجید پڑھنے پر امت کا اجماع ہے خواہ اسے سمجھے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اختلاف کے وقت قرآن پڑھنا حرام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے ساتھ محبت کا حکم دیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے سامنے جھک جائے اور اسے اپنی زندگی کا محور قرار دے لے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف سے ڈرایا ہے کیونکہ یہ تباہی اور ہلاکت کا راستہ ہے۔