تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کی ہے: اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا احد کے دن سے زیادہ گراں اور تکلیف دہ دن بھی کبھی آپ پر آیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ۔ ’’ہاں تمھاری قوم سے مجھے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت اور شدید تکلیف دہ تھی جو مجھے عقبہ کے دن پہنچی۔ جب میں نےاپنے آپ کو عبد یالیل بن عبد کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا مگر اس نے میری بات قبول نہ کی اس غم والم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا۔ مجھے قرن ثعالب پہنچ کر کچھ افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے انھوں نے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کلام اور ان کا جواب سن لیا ہے۔ اب اس نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے متعلق اسے جو حکم دیں اس کی تعمیل ہو گی۔ اس کے بعد پہاڑوں کےفرشتے نے آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! بات یہی ہے۔ اب آپ جو چاہیں میں کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائے گی۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق: حدیث:3231)
2۔ اس حدیث میں واضح طور پر اس اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور انھیں دیکھتا ہے۔ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں سمع اور بصر اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات ہیں جس کے متعلق ہم ابھی بیان کر آئے ہیں۔ جو شخص ان صفات کا انکار کرتا ہے ا سے ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور دلائل و براہین سے اسے قائل کیا جائے اگر وہ اپنے انکار پر جما رہے اور حق کی وضاحت کے باوجود اسے قبول نہ کرے تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز کا انکار کیا ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کے اجماع سے ثابت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 199/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کرمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کی دو ذاتی صفات سمع اور بصر کا ثبوت ملتا ہے۔ جب کوئی سنائی اور دیکھائی دینے والی چیز وجود میں آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذاتی قدیم صفات کا تعلق ان سے قائم ہو جاتا ہے جبکہ معتزلہ ان صفات کو حادث کہتے ہیں قرآنی آیات اور احادیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بہر حال اس سلسلے میں اسلاف کا موقف ہی صحیح اوردرست ہے۔ واللہ المستعان۔ ( فتح الباري:459/13)