1۔عزل کے معنی ہیں: بیوی سے صحبت کرتے وقت اندام نہانی سے باہر انزال کرنا۔ بعض حالات میں اس کی اجازت ہے لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کے لیے اسے بنیاد قرار دینا نری حماقت ہے کیونکہ عزل، بیوی خاوند کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بعض اوقات اسے خفیہ طور پر زندہ درگورکرنا قراردیا ہے۔
2۔مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز بیان ہی سے اس عمل کی کراہت معلوم ہوتی ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ اگرتم عزل نہ کرو تو زیادہ بہترہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق کے پیدا کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے وہ پیدا ہو کررہے گی۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544(1438) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرتم عزل کروگے تو حرج ہوگا یہ مطلب نہیں کہ عزل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر یہ مقصد ہوتا تو صاف کہہ دیا جاتا کہ عزل کر لیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 381/9)
3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو وجود میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ وجود میں آکر رہے گا، خواہ عزل کیا جائے یا نہ کیا جائے اور جس کا پیدا کرنا مقدر نہیں وہ کسی صورت میں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے بیوی سے مباشرت کے نتیجے میں کسی بچے کی پیدائش کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ ہو کر رہے گا، خواہ اس کے روکنے کے لیے کتنے ہی ذرائع ووسائل استعمال کر لیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی غالب آنے والا نہیں۔ وہ اکیلا ہی خالق ومالک ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ اکیلا ہی خالق، موجد اور تصویر بنانے والا ہے۔ میاں بیوی کو اس میں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے والا ہے، اس میں لوگوں کے چاہنے یا نہ چاہنے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہی اسے عدم سے وجود میں لانے والا، پھر شکم مادر (ماں کے پیٹ) میں اس کی صورت بنانے والا ہے۔دنیا کے تمام ماہرین اکھٹے ہو جائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے نقشے میں سرمو فرق نہیں لا سکتے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 295/1) (فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ)
4۔حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فعل خلق، غیر مخلوق ہے جبکہ اس کانتیجہ مخلوق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار کے افعال اور اس کی صفات کے طفیل پناہ طلب کرتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا مروی ہے: ’’اےاللہ! میں تیری رضا کے طفیل تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضا جو اس کی صفت ہے، اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے پناہ مانگی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا غیرمخلوق ہے کیونکہ اس کے طفیل پناہ طلب کی ہے۔ اگر یہ فعل مخلوق ہوتا تو اس کےذریعے سے پناہ نہ طلب کی جاتی کیونکہ مخلوق کے طفیل پناہ مانگنا جائز نہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی غیر مخلوق ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 229/6) ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث کے مطابق خالق کے معنی ہیں، مخلوق کو ازسرنو پیدا کرنے والا اور اشیاء کوعدم سے وجود میں لانے والا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ ایک ایسی صفت ہے جس میں اور کوئی مخلوق شریک نہیں۔ (فتح الباري: 481/13)