تشریح:
1۔ مشہور قراءت میں (وَمَا أُوتِيتُم) ہے یعنی تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا البتہ امام اعمش کی قراءت میں (وَمَا أُوتُوا) یعنی ماضی غائب کا صیغہ ہے اور یہ قراءت شاذ ہے۔
2۔روح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ فلا سفہ نے اس کے متعلق جو کہا ہے وہ سب تخمینی جو کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں موجود سائنس دانوں کو سخت محنت کے باوجود اس کے متعلق کوئی حقیقی علم نہیں ہو سکا۔ اس وقت کے یہودی اس معقول جواب کو سب کر بالکل خاموش ہو گئے کیونکہ اس جواب نے قیل و قال کا دروازہ ہی بند کر دیا آیت کریمہ میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک امر رب ہے جب تک وہ کسی حیوان میں ہے اس کی قدر و قیمت ہے اور جب وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے تو وہی حیوان بے قدر اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لیا جائے کیونکہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روح کی حقیقت کوئی شخص نہیں جانتا اگر یہ حضرت اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو روح کی حقیقت بیان نہیں کریں گے۔
3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ روح کا وجود اللہ تعالیٰ کے امر کے مرہون منت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امر ایک الگ حقیقت ہے جو غیر مخلوق ہے اور روح جو اس کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے وہ مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر اس روح کی تخلیق سے پہلے موجود تھا البتہ اس امر کا تعلق اس روح سے حادث ہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن سے ہی پیدا کیا ہے۔ یہی بات عنوان میں بیان کی گئی ہے۔