تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے جنت کاوعدہ کیا اور لغزش کے ارتکاب پر دو صورتیں ممکن ہیں۔ اگر اس کا دنیا میں مؤاخذہ ہوا اور حد جاری ہوگئی تو یہ حد گناہ اور پاکیزگی کا ذریعہ ہوگی لیکن یہ کفارہ شرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کے ارتکاب پر ہوگا شرک سے توبہ کرنا ہوگی۔ وہ تب معاف ہوگا اگر دنیا میں مؤاخذہ نہ ہوا تو معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔
2۔اس میں اہل سنت کے موقف کی تائید ہے کہ کفر کے علاوہ دیگر گناہوں کے ارتکاب پر جہنم میں جانا یقینی نہیں بلکہ اگر انسان توبہ کے بغیر مرگیا تو معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوگا اگر چاہے تو اسے معاف کردے چاہے تو سزا دے۔ لیکن خوارج اور معتزلہ نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا ہے۔ خوارج کے نزدیک گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ کافر تو نہیں ہوتا البتہ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ثابت کیا ہے کہ اگر انسان گناہ کے ارتکاب پر توبہ کے بغیر مرگیا تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ اس میں معتزلہ وغیرہ کی تردید ہے جو اپنی عقل سےاللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں اور خوارج کو بھی تنبیہ ہے جو عام مسلمانوں کو گناہ کے ارتکاب پر کافرقرار دیتے ہیں۔