تشریح:
1۔عنوان سابق میں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہم کلام ہونا بیان ہوا تھا اور اس باب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے علم کے مطابق نازل کیا ہے اور یہ قرآن کریم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر مبارک پر نازل ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے گفتگو کی اور انھیں قرآن کریم اتارنے کا حکم دیا۔ اس طرح دونوں عنوانوں میں مناسبت ہے۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے اتارا گیا ہے، پیدا نہیں کیا گیا۔ نازل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حادث ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ مخلوق کی صفات سے کسی طرح سے بھی مشابہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں اس کتاب پر ایمان لانے کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔ بہرحال قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہے اور وہ اس کا نازل کیا ہوا ہےکسی اعتبار سے بھی مخلوق نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔