تشریح:
(1) شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کی حالت میں آسمان کی طرف دیکھنا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔ نماز کے علاوہ بھی قاضی شریح وغیرہ نے اسے مکروہ کہا ہے مگر اکثر علماء نے اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ جس طرح کعبہ معظمہ نماز کے لیے قبلہ ہے اسی طرح آسمان دعا کا قبلہ ہے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ایک قسم کا قبلے سے اعراض ہوتا ہے، اس کے علاوہ نماز کی حیثیت وصورت سے بھی نکلنے کا باعث ہے۔ (فتح الباري:302/2) دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ممانعت کیوں ہے؟حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ایک وعید ہے اور ایسا کرنا حرام ہے لیکن امام ابن حزم ؒ نے افراط کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ بعض نے اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس کام سے ممانعت نگاہوں پر شفقت کے پیش نظر ہے کہ نمازیوں پر حالت نماز میں فرشتے انوار وتجلیات کی بارش کرتے ہیں۔ اگر اس دوران میں نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا جائے تو شدت انوار کی وجہ سے ان کی روشنی سلب ہوجانے کا خطرہ ہے۔ جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ کے واقعے میں ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کتاب فضائل القرآن میں بیان ہوگی۔ (فتح الباري:303/2) سنن ابن ماجہ میں اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی،جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:’’لوگوں کا کیا حال ہے وہ اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔‘‘ پھر انتہائی غصے میں فرمایا:’’وہ ایسا کرنے سے باز آجائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کی بصارت سلب کرلے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1044) (2) ابن بطال ؒ نے دعا کے لیے آسمان کو قبلہ قرار دیا ہے۔ یہ محل نظر ہے کیونکہ دعا اور نماز کا ایک ہی قبلہ ہے، کیونکہ اولاً: دعا کے لیے آسمان کا قبلہ ہونا محتاج دلیل ہے، کتاب وسنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، پھر رسول اللہ ﷺ دعا کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرتے تھے، جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز ہر چیز کا قبلہ وہی ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہو نہ کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا پڑے۔