تشریح:
1۔گویا سب معبودان باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ مشرک اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔ اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مذکورہ ہے کہ میں بادشاہ ہوں۔ بلا شبہ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئےگا۔ جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ سب قیامت کی ہولنا کیوں سے دہشت زدہ ہوں گے۔ کسی کوکلام کرنے کی ہمت اور فرصت نہیں ہو گی۔ ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کر کے پوچھے گا ۔ ’’آج حکومت کس کی ہے؟ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر کہاں ہیں؟ متکبر کہاں ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا۔ آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے جو بہت دبدبے والا ہے۔‘‘ (المؤمن: 40۔16)
2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی اس بات پر آئی کہ یہودی عالم اللہ تعالیٰ کی شان کس انداز سے بیان کر رہا ہے۔ حالانکہ یہود وہ قوم ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت کو کماحقہ نہیں سمجھا اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا۔
3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی صحیح اور سچی باتوں کی تصدیق کرنا معیوب بات نہیں۔