تشریح:
1۔بد عقیدگی اور بدعملی میں مبتلا کفارومشرکین کے حاشیہ خیال میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ان کے خلاف گواہی دینے والے ان کے اعضاء بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا ان گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ یہ سوچ لیتے تو ان سے گناہ اور نافرمانی کا سر زد ہونا ہی نا ممکن تھا کیونکہ نہ وہ خود اپنے اعضاء سے چھپ سکتے تھے اور نہ ان سے گناہ کوہی چھپا سکتے تھے اور نہ ان کے بغیر گناہ کا کام کر سکتے تھے ابن بطال نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اللہ تعالیٰ کے لیے صفت سمع کا اثبات ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام ثابت کرنا ہے کہ وہ جب چاہے کلام کرنے پر قادر ہے۔ (فتح الباري: 13/ 616)
2۔ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بندوں کے اعمال ان کے اختیار سے واقع ہوتے ہیں اور کلام اسی کی صفت ہوتی ہے جو اسے ادا کرتا ہے۔ انسان کے اعضاء قیامت کے دن جب ان کے خلاف گواہی دیں گے تو ان کی گفتگو اور گواہی کومبنی بر حقیقت قرار دیا جائے گا اور اس وقت ان کا کلام اعضاء کی طرف منسوب ہو گا اسی طرح ہر متکلم کا کلام اس کا فعل اور صفت ہے اس کے برعکس جو کسی دوسرے کا کلام نقل کرتا ہے وہ اس کا کلام نہیں بلکہ وہ اس کا ناقل ہےالبتہ ہونٹوں اور زبان کی حرکت نیز اس کی آواز نقل کرنے والے کی شمار ہو گی اور الفاظ و حروف سے جو کلام ادا ہو رہا ہے اس کی نسبت اس غیر کی طرف ہو گی جس کا کلام نقل کیا جا رہا ہے جیسا کہ مشہور مقولہ ہے۔ آواز تو قاری کی ہوتی ہے البتہ کلام ذات باری کا شمار کیا جائے گا۔
3۔بعض حضرات کو شبہ لاحق ہوا ہے کہ آیت کریمہ میں (تَعْمَلُونَ) کی نسبت انسانوں کی طرف ہے لہٰذا وہ اپنے افعال کے خلق ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس شبہے کا ازالہ اس طرح کیا ہے کہ آیت کریمہ میں عمل کی نسبت بندوں کی طرف باعتبار کسب اور ارتکاب کے ہے البتہ بحیثیت تخلیق اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گی۔ واللہ أعلم۔