تشریح:
(1) محدثین نے اس حدیث کو "حديث مُسيئ الصلاة" کا نام دیا ہے۔ اور اس سے بکثرت مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو بار بار نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کا یہی قصور تھا کہ وہ رکوع و سجود ٹھیک طور پر ادا نہیں کرتا تھا۔ اس سے پہلے حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک حدیث گزر چکی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر رہا تھا تو فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو دین فطرت کے خلاف مرے گا جس دین پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور فرمایا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:78/2(طبع مکتبة الرشد))
(2) اس حدیث میں ان امور کی نشاندہی نہیں کی گئی جن میں کوتاہی کی وجہ سے اسے دوبارہ سہ بارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا لیکن اس واقعے کو ابن ابی شیبہ نے حضرت رفاعہ بن رافع کی روایت سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ہلکی سی نماز پڑھی اور اس میں رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:791) امام بخاری ؒ نے عنوان کے ذریعے سے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سنن نسائی میں ہے کہ اس نے دو رکعت ادا کی تھیں۔ ممکن ہے کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھی ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے سورۂ فاتحہ پڑھ، پھر قرآن سے جو تجھے میسر ہو اسے تلاوت کر۔‘‘ (مسند أحمد:340/4) اس تفصلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:2/364،360)