تشریح:
(1) اس حدیث میں ابو قلابہ کے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ ان کی نماز میں دو چیزیں بطور خاص ذکر ہوئی ہیں: ٭ اتمام تکبیر ٭اعتماد علی الارض۔ اتمام تکبیر کے دو معنی ہیں: ٭ نماز کی تمام تکبیرات کا عدد پورا کیا جائے جو چار رکعات میں بائیس تک ہے۔ ٭ اللہ أکبر کو لمبا کیا جائے جو پوری حرکت انتقال پر محیط ہو۔ اعتماد علی الارض کے بھی دو معنی ہیں: ٭ دوران سجدہ میں کہنیوں کو گھٹنوں یا رانوں پر رکھنا جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے باب الاعتماد في السجود میں مراد لیا ہے۔ ٭ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینا۔ اس مقام پر اعتماد علی الأرض کے دوسرے معنی مراد ہیں، چنانچہ شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا ہے کہ سجدے سے فراغت کے بعد زمین پر ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنا امام شافعی ؒ کے نزدیک سنت ہے اور احناف نے اس کی سنیت سے انکار کیا ہے۔ سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت وہ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر اٹھنے کے بجائے سیدھے تیر کی طرح اٹھتے ہیں اور بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے، لیکن یہ حدیث من گھڑت اور موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں خصیب بن جحدر نامی ایک راوی کذاب ہے، (مجمع الزوائد:135/2، حدیث:2806) نیز یہ روایت صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینے کی صراحت ہے۔
(2) سوال یہ ہے کہ زمین پر ٹیک لگا کر اٹھتے وقت ہاتھوں کی کیفیت کیا ہو؟ کیا کھلے ہاتھوں اٹھنا چاہیے یا مٹھی بند کر کے کھڑے ہونا چاہیے؟ اس کے متعلق ازرق بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو آٹا گوندھنے والے کی طرح مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (غریب الحدیث لأبي إسحاق الحربي، باب عجن:2؍525) اگرچہ اس روایت پر ہیثم بن عمران کی وجہ سے اعتراض کیا گیا ہے لیکن امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة:392/2) بعض معاصر اہل علم نے اس کی یہ توجیہ بھی کی ہے کہ آٹا گوندھتے وقت کبھی کھلے ہاتھ بھی استعمال ہوتے ہیں، لہذا کھلے ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن یہ توجیہ امر واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ کھلے ہاتھوں سے آٹا نہیں گوندھا جاتا بلکہ مٹھی بند کر کے اسے گوندھا جاتا ہے۔ اس بنا پر ہماری تحقیق یہی ہے کہ ہر رکعت سے کھڑے ہوتے وقت مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہونا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی عذر یا اس میں دقت ہو تو کھلے ہاتھوں اٹھنے کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔ علامہ عینی ؒ نے فقہاء کے حوالے سے اس کیفیت کو بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:568/4)
(3) اختصار کے ساتھ کیفیت سجدہ حسب ذیل ہے: ٭ سجدے کے لیے جھکتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے۔ (مسند أحمد:2/381) ٭ سجدہ کرتے وقت درج ذیل سات اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں: (1) پیشانی اور ناک (2-3) دونوں ہاتھ (4-5) دونوں پاؤں (6-7) دونوں گھٹنے۔ (صحیح مسلم ،الصلاة، حدیث:1100(491)) ٭ دوران سجدہ میں ہاتھ زمین پر جبکہ کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی ہوں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1104(494)) ٭ دوران سجدہ میں قدموں کی ایڑیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرک للحاکم:1/228) ٭ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف اور قدم کھڑے ہونے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:828) ٭ سجدے میں دونوں بازو کشادہ، ہاتھ پہلوؤں سے دور، سینہ، پیٹ اور رانیں زمین سے اونچی، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:963،730) ٭ بحالت سجدہ ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرك للحاکم:244/1) نیز بوقت ضرورت کسی کپڑے پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:385) واضح رہے کہ مرد اور عورت کے لیے سجدے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے، اس کے علاوہ کوئی خاص طریقہ عورت کے لیے کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔