تشریح:
(1) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے اپنے گورنر کو خط لکھا کہ مجھے وہ وظیفہ لکھ کر ارسال کرو جسے رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد پڑھتے ہوں تو انہوں نے مذکورہ وظیفہ لکھ کر بھیجا تھا۔ طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: (يحيي و يميت وهو حي لا يموت بيده الخير) ’’وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ ایسا زندۂ جاوید ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کے ہاتھ خیروبرکت ہے۔‘‘ (فتح الباري:429/2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر حدیث میں کوئی مشکل لفظ آ جائے اور اسی طرح کا لفظ قرآن میں بھی آتا ہو تو قرآنی لفظ کا معنی بتانے کے لیے مفسرین کا حوالہ دیتے ہیں، اس مقام پر حسن بصری سے لفظ جد کی وضاحت کی ہے کہ اس کے معنی بے نیازی کے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا﴾ (الجن3:72) ’’اور یہ کہ بہت بلند ہے شان ہمارے رب کی‘‘ اکثر روایات میں یہ تفسیری بیان ذکر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:430/2)
(2) حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ ضرور پڑھا کرو: "رب أعني علی ذكرك و شكرك و حسن عبادتك" ’’اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔‘‘ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:1304)