تشریح:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایسی صورتحال سامنے آ جائے جس کا حکم معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا اور اس کےلیے سفر کرنا ضروری ہے، اپنے نظریے کے مطابق عمل کرلینا درست نہیں۔
2۔ اس حدیث سے ان شبہات کی وضاحت ہوتی ہے جن سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق شبہ پڑ جائے تو اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہیے۔ بعض حضرات نے اس مقام پر فتویٰ اور تقویٰ کی بحث کو چھیڑا ہے، یعنی فتویٰ تو یہی ہے کہ ایک عورت کی گواہی سے بیوی خاوند کے درمیان تفریق نہ کرائی جائے، البتہ تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اب انھیں اکٹھا نہیں رہنا چاہیے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی سے تفریق کا فتویٰ صادر فرمایا۔اس کی مکمل وضاحت کتاب الرضاعہ میں آئے گی۔
3۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس عورت سے شادی کی تھی اس کا نام ام یحییٰ غنیۃ تھا جو ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی تھی اورتفریق کے بعد اس نے ظریب بن حارث سےشادی کر لی تھی اور جس عورت نے دودھ کے متعلق گواہی دی اس کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ (فتح الباري: 244/1)