تشریح:
(1) کچھ اہل علم کے نزدیک جمعے کے دن مسواک کرنا ضروری ہے حتی کہ اگر دانستہ طور پر مسواک ترک کر دی جائے تو ان کے نزدیک جمعہ صحیح نہیں ہے جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی جمہور اہل علم کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عام روایات ہی سے استدلال کیا ہے، چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں تین متصل روایات بیان کی ہیں: پہلی روایت میں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا ذکر ہے۔ اسی عموم میں نماز جمعہ بھی شامل ہے۔ حضرت زین بن منیر فرماتے ہیں کہ جمعہ کے لیے غسل، نظافت اور خوشبو وغیرہ سے اپنے ظاہر کو سنوارنے کا حکم ہے، اس لیے ضروری ہے کہ نمازی کا منہ جو مناجات الٰہیہ کے لیے ظرف اور محل کی حیثیت رکھتا ہے اسے بھی صاف رکھا جائے اور اس سے ہر تکلیف دہ چیز کو دور کیا جائے جو انسانوں اور فرشتوں کے لیے نفرت کا باعث ہے۔ اسی طرح دوسری حدیث کے عموم سے امام بخاری ؒ نے جمعہ کے دن مسواک کرنے پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکثرت مسواک کرنے کے متعلق امت کو تلقین کیا کرتے تھے۔ جمعہ کا دن جو دراصل اجتماع کا دن ہے، اس کے لیے بالاولیٰ مسواک کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حدیث حذیفہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھتے وقت مسواک کے ذریعے سے اپنے منہ کو صاف کرنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے تاکہ آپ کا اندرون صاف ستھرا رہے۔ جمعہ کے دن تو ظاہر اور باطن کو خوبصورت بنانے کا حکم ہے، اس لیے جمعہ کے لیے مسواک کے ذریعے سے صفائی کا اہتمام انتہائی ضروری ہے۔ (فتح الباري:482/2)
(2) نمازی کے منہ سے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ سے مناجات کا ذریعہ ہے، فرشتے جو نمازی کے منہ سے قرآن مجید اور ذکر الٰہی کے کلمات سنتے ہیں اور فرط اشتیاق سے تلاوت کرنے والے کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیتے ہیں تاکہ جو آواز بھی قرآن پڑھنے اور ذکر کرنے والے کے منہ سے نکلے وہ سب فرشتے کے منہ میں چلی جائے جیسا کہ مسند بزار کی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (مسند البرار(البحر الدخار)214/2، و سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:1213) ایسے حالات میں منہ کو نہایت صاف ستھرا رکھنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے کم ہے۔ (فتح الباري:484/2)
(3) مسواک کے متعلق اکابر امت کا اختلاف ہے کہ یہ نماز کی سنت ہے یا وضو کی یا دین کی؟ احادیث سے ہر موقف کی تائید ہوتی ہے۔ ہر دیندار کو تمام حالات میں سنت مسواک پر عمل کرنا چاہیے۔ وضو کے وقت، نماز کے وقت اور منہ میں کسی قسم کا تغیر آنے کے وقت خاص طور پر مسواک کا اہتمام کرنا چاہیے۔ علمائے امت نے پانچ اوقات میں مسواک کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ ٭ وضو کے وقت ٭ نماز کے وقت ٭ جب منہ میں بدبو پیدا ہو جائے ٭ جب دانت زرد ہو جائیں ٭ جب نیند سے بیدار ہو۔
(4) مسواک کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کے منہ سے اُع اُع کی آواز نکلتی تھی جیسا کہ قے کرنے کی کیفیت ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اچھی طرح منہ کے اندر مسواک کی جائے تاکہ حلق اور سینے کا بلغم نکل جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آواز صاف ہو جاتی ہے اور منہ خوشبودار ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس طرح منہ کے متعدد امراض خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ (حجة اللہ البالغة:567/1، طبع مکتبة الکوثر)