اردو حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امورایمان کی وضاحت کے لیے پہلے قرآنی آیات کا حوالہ دیا پھر حدیث نبوی کا ذکر فرمایا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ امورایمان وہ چیزیں ہوسکتی ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، نیز اس حدیث میں ایمان کو درخت سے تشبیہ دے کر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس درخت کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔اس کے علاوہ دیگر امور ایمان اس کی شاخیں ہیں۔ اس سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے تعلق قراردیتے ہیں حالانکہ درخت کی جڑ اور اس کی ٹہنیوں کے درمیان ایک قدرتی ربط ہوتا ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ نہیں کہا جاسکتا۔ جڑ قائم ہے تو پتے اور ٹہنیاں بھی قائم ہیں، اگر جڑ تازہ نہیں تو پتے اور ٹہنیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔ شجر ایمان کی جڑ عقیدہ توحید ہے اور اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ اس کے برگ وبار ہیں۔ اس حدیث سے ایمان اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق اور ایمان کی کمی بیشی ہردو امور ثابت ہوتےہیں۔
2۔ ایک روایت میں ہے کہ ان شعبوں میں سب سے اعلیٰ شعبہ ’’لا إله إلا الله‘‘ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ، راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 153(35)) اس روایت سے ادنیٰ اور اعلیٰ کی تعيین تو ہوگئی لیکن فروع ایمان کی اصل تعداد متعین نہیں ہوئی۔ اس کے متعلق امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ(مذکورہ) حدیث کا معنی سمجھنا چاہا اور میں نے طاعات کو شمار کرنا شروع کیا تو وہ حدیث میں بیان کردہ تعداد سے زائد تھیں، پھر میں نے احادیث کے اعتبار سے نظر ڈالی اور صرف ان اعمال کو شمار کیا جن پر ایمان کا اطلاق کیا گیا تھا توتعداد کم رہی، پھرقرآن کریم میں بیان کردہ ان اعمال کو گنا جن پر ایمان کا لفظ بولا گیا تھا تو تعداد پھر بھی کم رہی، آخر کار قرآن وحدیث کی وہ نیکیاں شمار کیں جو ایمان کے ساتھ مذکور تھیں اور مکررات کو حذف کردیا تو تعداد 69 نکلی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (شرح الکرماني: 84/1)
3۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مستقل ایک کتاب "شعب الایمان" کو مرتب فرمایا ہے جو مطبوع ہے۔ اس میں انہوں نے امور ایمان کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امور ایمان کو اعمال قلب، اعمال لسان اور اعمال بدن پر تقسیم کرتے ہوئے اعمال قلب کی چوبیس (24) شاخیں، اعمال لسان کی سات(7) اور اعمال بدن کی اڑتیس(38) شاخیں تفصیل سے بیان فرمائی ہیں جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ (فتح الباري: 73/1) لیکن ان تمام شاخوں کی بنیاد ایک ہی چیز ہے یعنی علم وعمل سے اپنے نفس کی تہذیب بایں طور کی جائے کہ اس کی دنیا وآخرت باعث رشک ہو، وہ اس طرح کہ صداقت حق کا عقیدہ رکھے اورعمل وکردار میں سلامت روی اور مستقل مزاجی اختیار کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ’’جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر قائم رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔‘‘(الأحقاف 46: 13) حدیث میں ہے کہ سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی جامع بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ نےفرمایا: ’’کہہ: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیارکر۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 159(38))
4۔ حیا طبیعت کے انکسار کا نام ہے جو کسی ایسے خیال یا فعل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جوعرفاً یا شرعاً مذموم سمجھا جاتا ہو، یعنی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے کرنے سے شرعی سبکی ہو۔ یہی وہ شرعی حیا ہے، جو انسان کو اللہ کی بندگی اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی حیا انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے حدیث میں ہے کہ حیا خیر کی چیز ہے اور خیر ہی کو لاتی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 156(37)) حدیث میں اس قسم کی حیا کو ایمان کی شاخ قراردیاگیاہے۔
5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کاخصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو اخلاق حسنہ ایمان کے لیے مبادی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں حیا بھی ہے بلکہ حیا ایمان کا سرچشمہ ہے کیونکہ انسان جب اپنے وجود اور اپنی صفات کمال پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اگرانسان ان انعامات واحسانات کے باوجود، جو اللہ نے اس پر فرمائے ہیں، اللہ کی ذات پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کی بہت بڑی بے حیائی ہے، گویا ان احسانات کے پیش نظر اللہ پر ایمان لانا حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ یعنی حیا پہلے ایمان کا سبب بنی، ایمان لانے کے بعد پھر ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ثابت ہوئی کیونکہ انعامات کا مسلسل شکریہ ادا کرتے رہنا بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر صفت حیا کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا، نیز (شُعْبةٌ) میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے: اَلـحَيَاءُ شُعْبَةٌ عَظِيمَةُ ’’حیا ایمان کا بڑا شعبہ ہے‘‘ یعنی حیا ایک ایسا شعبہ ہے جس پر بہت سے شعبے مرتب ہوتے ہیں بلکہ حیا ان کے وجود کا سبب بنتی ہے۔حدیث میں اس کی افادیت کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب تم میں حیا نہیں ہے تو جو چاہو کرتے رہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6120) ’’بے حیا باش وہرچہ خواہی کن۔‘‘