ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لینے ہی میں نہیں بلکہ حقیقت کے اعتبار سے اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہو۔ اور مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی کرے۔ جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔" (نیز فرمایا: ) "یقینا ان مومنوں نے فلاح پائی (جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں) ۔۔ الخ"
حدیث ترجمہ:
ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انھوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابو عامر عقدی نے، انھوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم ﷺ سے آپ نے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ا میرالمحدثین سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں ’’امور الإیمان‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گئے ہیں اور دوسری آیتوں میں ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرۃ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔ آپﷺ نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قراردیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیاگیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔
حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت ﷺ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ ﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ (البقرة: 177) ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔
آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی، حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ ’’بر ‘‘ کی تفسیرہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف ’’ایمان‘‘ کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن وسنت کے خلاف ہے۔
سورۃ مومنون کی آیات یہ ہیں : بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ - الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ - إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ - فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ - أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ - الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (المؤمنون: 1-11)
اس پیرایہ میں یہ بیان دوسر ااختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت،عصمت شرم وحیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگران نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں المتقون کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔
آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جاناچاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔
بعض روایات میں بضع وستون کی جگہ بضع وسبعون ہے اور ایک روایت میں اربع وستون ہے۔ اہل لغت نے بضع کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخوں کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی کا یہی قول ہے۔ بعض علماءتحدید مراد لیتے ہیں۔پھر ستون ( 60 ) اور سبعون ( 70 ) اور زائد سبعون کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔بعض حضرات کے نزدیک ستون ( 60 ) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں سبعون کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔
«وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ» میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا و شرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔اسی لیے فرمایا گیا: «إذا لم تستحي فاصنع ما شئت» ’’جب تم شرم وحیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔‘‘ کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔
امام بیہقی نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان وشعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
علامہ ابن حجرنے ان سب کو اعمال قلب ( دل کے کام ) اعمال لسان ( زبان کے کام ) اعمال بدن ( بدن کے کام ) پر تقسیم فرماکر اعمال قلب کی 24شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ لاإله إلا الله اور ادنیٰ شاخ إماطة الأذی عن الطریق بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم وملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ توایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہوکر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہرممکن خدمت کرنے پر جاکر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں:
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر