تشریح:
(1) قبل ازیں روایت انس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ اول وقت میں پڑھتے تھے۔ اس میں مطلقاً تعجیل کا ذکر ہے۔ موسم کے گرم یا سرد ہونے کی تفصیل نہیں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:905) جبکہ مذکورہ روایت میں یہ تفصیل موجود ہے، نیز بشر بن ثابت کی معلق روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کے نزدیک نماز ظہر اور نماز جمعہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ سوال تو نماز جمعہ کے متعلق تھا لیکن جواب میں نماز ظہر کا وقت بیان کیا گیا ہے۔ اس سے بھی واضح وہ ہدایت ہے جس میں سیدنا انس ؓ نے یزید ضبی کے سوال کا جواب دیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف کی طرح اس کا نائب حکم بن ابی عقیل ثقفی بھی طویل خطبہ دیتا اور نماز میں تاخیر کرتا تھا۔ یزید ضبی نے سیدنا انس ؓ سے بآواز بلند سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نمازیں پڑھی ہیں، آپ نماز جمعہ کس طرح پڑھا کرتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا ہم موسم سرما میں نماز جلدی اور گرما میں دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا آپ نے جمعہ کو ظہر پر قیاس کر کے یہ جواب دیا اور نماز جمعہ کے لیے تاخیر کی وجہ بیان کر دی جس پر حاکم وقت سے اعتراض اٹھ گیا۔ لیکن اس کی بنیاد الفاظ حدیث پر نہیں بلکہ قیاس پر ہے، پھر اکثر احادیث نماز جمعہ اور نماز ظہر کے مابین فرق پر دلالت کرتی ہیں۔
(2) علامہ زین بن منیر ؒ نے کہا ہے کہ اس عنوان اور حدیث سے امام بخارى ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس کر کے اسے تاخیر سے پڑھا جا سکتا ہے۔ جب نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا جمعہ کے لیے بھی مشروع ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ جمعہ زوال سے پہلے پڑھنا مشروع نہیں، اس لیے کہ اگر وہ زوال سے پہلے مشروع ہوتا تو زیادہ گرمی کی وجہ سے تاخیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ زوال سے پہلے ٹھنڈے وقت میں پڑھا جا سکتا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ہر طرح سے نماز کو تشویش و پریشانی سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ وہ پورے اطمینان اور خشوع خضوع سے نماز ادا کرے۔ گرمی میں نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی رعایت کا یہی منشا ہے جبکہ موسم سرما میں یہ رعایت کسی صورت میں نہیں ہے۔ (فتح الباري:501/2)
(3) یونس بن بکیر کی معلق روایت کو مصنف نے الادب المفرد میں متصل سند سے بیان کیا ہے اور بشر بن ثابت کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:500/2)