تشریح:
(1) صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں: ’’وہ اذان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی جب امام خطبے کے لیے تشریف لے آتا۔‘‘ (صحیح ابن خزیمه:136/3) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد میں دو اذانیں ہوتی تھیں۔ (صحیح ابن خزیمة:137/3) امام ابن خزیمہ ؒ وضاحت کرتے ہیں کہ ان اذانوں سے مراد اذان خطبہ اور اقامت نماز ہے۔ چونکہ اذان خطبہ غیر موجود لوگوں کو اطلاع اور اقامت، حاضرین کو آگاہ کرنے کے لیے کہی جاتی ہے، اس لیے دونوں کو اذان کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ اس سے مراد بھی اذان اور اقامت ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:137/3)
(2) عثمانی اذان اضافے کے اعتبار سے تیسری اور ترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے۔ بعض روایات میں اسے اذان ثانی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:915) حقیقی اذان نبوی کے مقابلے میں اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبار سے اذان عثمانی پہلی ہے۔ روایات میں عام طور پر اذان نبوی کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب امام منبر پر فروکش ہو جاتا تو اذان کہی جاتی تھی، محل کا ذکر نہیں ملتا۔ محل اذان کے متعلق معجم طبرانی میں حدیث ہے: (كان النداء علی عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و أبي بكر و عمر عند المنبر) ’’رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے زمانے میں اذان (جمعہ) منبر کے پاس ہوتی تھی۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:146/7) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ائمہ اربعہ کے ہاں بھی اسی پر عمل ہے۔
(3) اس سلسلے میں جمعے کے لیے پہلی اذان کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے لیے صرف ایک ہی اذان دی جاتی تھی، وہ بھی اس وقت کہی جاتی تھی جب خطیب منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کی کثرت کے باعث بازار میں ایک اونچے مقام (زوراء) پر ایک اذان کا اضافہ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو بآسانی خبردار کیا جا سکے۔ اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے اختیار کر لیا۔ اگر آج بھی ایسے حالات ہوں تو اس عمل کو مباح قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عصر حاضر میں تقریبا ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دور دراز علاقوں میں اذان کی آواز پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان حالات میں کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، لہذا حضرت عثمان ؓ کے عمل سے پہلی اذان کو جواز کشید کرنا محل نظر ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے۔ یہ بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:470/3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات علی سبیل انکار کہی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے آپ کی مراد انکار نہ ہو بلکہ تحسین کے طور پر ایسا کہا ہو کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ اذان نہیں تھی، تاہم ایک اچھا عمل ہے جسے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہے۔ (فتح الباري:507/2) ہمارے نزدیک پہلا احتمال راجح ہے کیونکہ حضرت علی ؓ نے دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کر کے اذان نبوی ہی کو برقرار رکھا۔ (تفسیر القرطبي:100/18) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر ؓ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ نویں صدی ہجری کے نصف تک مغرب ادنیٰ (تونس و طرابلس) کے علاقے میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان دینے کا اہتمام تھا۔ (فتح الباري:507/2) امام شافعی ؒ جمعہ کی اذان کے متعلق عہد رسالت ہی کے طرز عمل کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (کتاب الأم:195/1) واضح رہے کہ ہم جمعہ کے لیے پہلی اذان کو بدعت بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان ؓ نے یہ اذان دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کی تھی، وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لیے اذان اس لیے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جا سکے۔ چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کو اطلاع ہو جائے اور ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے اجر کے ضیاع کا بھی اندیشہ تھا، اس لیے انہوں نے پہلی اذان کا اہتمام کر دیا، لیکن جن حضرات کو اس کے جاری رکھنے پر اصرار ہے انہیں چاہیے کہ سنت عثمان پر عمل کرتے ہوئے بازار میں کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پہلی اذان دینے کا اہتمام کریں۔ ہمارے نزدیک تفصیل بالا کے پیش نظر سنت نبوی کے مطابق جہاں ایک اذان دینے کا عمل ہے وہاں اسے برقرار رہنا چاہیے، کسی خاص مکتب فکر کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس نبوی طرز عمل کو بدلنا قطعاً مستحسن نہیں، البتہ جہاں دو اذانیں ہوتی ہیں وہاں دیکھا جائے کہ اگر کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو تو وہاں ایک اذان پر اکتفا کیا جائے۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کو برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن سنت نبوی پر عمل کرنے کے لیے ذہن سازی کرتے رہنا اولین فریضہ ہونا چاہیے، اس بنا پر ایسے معاملات کو باہمی اختلاف و جدال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔