تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے جزم و وثوق سے فیصلہ نہیں کیا کہ وتر واجب ہے یا نہیں، البتہ وتر کو كتاب التهجد اور كتاب التطوع سے الگ بیان کیا ہے۔ یہ اسلوب تقاضا کرتا ہے کہ اس کی حیثیت تہجد اور تطوع سے جداگانہ ہے۔ اگر سواری پر وتر پڑھنے کی حدیث کو پیش نہ کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کا رجحان وجوب وتر کی طرف ہے لیکن انہوں نے مذکورہ عنوان اور اس کے متعلق حدیث پیش کر کے اس احتمال کو ختم کر دیا ہے۔ (فتح الباري:616/2)
(2) سابقہ احادیث میں بیان ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز وتر کے لیے اپنے اہل خانہ کو بیدار کرتے تھے، نیز آپ نے نماز شب کے آخر میں وتر پڑھنے کا امر صادر فرمایا ہے۔ ان احادیث سے بعض حضرات نے وجوب وتر کا استنباط کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث ابن عمر سے عدم وجوب کو ثابت کیا ہے اور اس پر دو الگ الگ عنوان قائم کر کے بتایا ہے کہ وتر واجب نہیں، البتہ عام نوافل کی حیثیت سے بالاتر ہیں کیونکہ سفر میں ان کے ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ سواری پر ادا کیے ہیں، اس لیے واجب نہیں کیونکہ فرائض کو سواری پر ادا کرنا ثابت نہیں۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ سواری پر وتر ادا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر نہیں تھا جیسا کہ قائلین وجوب کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:626/2)