قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِجَارَةِ (بَابُ اسْتِئْجَارِ المُشْرِكِينَ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، أَوْ: إِذَا لَمْ يُوجَدْ أَهْلُ الإِسْلاَمِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَعَامَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَهُودَ خَيْبَرَ

2282. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَاسْتَأْجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ ثُمَّ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ هَادِيًا خِرِّيتًا الْخِرِّيتُ الْمَاهِرُ بِالْهِدَايَةِ قَدْ غَمَسَ يَمِينَ حِلْفٍ فِي آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَأَمِنَاهُ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ فَأَتَاهُمَا بِرَاحِلَتَيْهِمَا صَبِيحَةَ لَيَالٍ ثَلَاثٍ فَارْتَحَلَا وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَالدَّلِيلُ الدِّيلِيُّ فَأَخَذَ بِهِمْ أَسْفَلَ مَكَّةَ وَهُوَ طَرِيقُ السَّاحِلِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یو ںکہ نبی کریم ﷺ نے خبیر کے یہودیوں سے کام لیا ( ان سے بٹائی پر معاملہ کیا تھا ) تشریح :اس باب کے مضمنون سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت مسلمان کو چھوڑ کر کافر کو نوکر رکھنا، اس سے مزدوری لینا منع ہے۔ کافر حربی ہو۔ یا ذمی امام بخاری  کا مذہب یہی ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو کاشتکاری کے کام پر اس وجہ سے قائم رکھا کہ اس وقت مسلمان کاشتکار ایسے موجود نہ تھے، جو خیبر کو آباد رکھتے۔ اگر آپ یہودیوں کو فوراً نکال دیتے تو خیبر اجاڑ ہو جاتا۔ اور خود مسلمانوں کی آمدنی میں بڑا نقصان ہوتا۔ مگر افسوس کہ خبیر کے یہودیوں نے جو بظاہر وفاداری کا دم بھر کر اسلامی زمین پر کاشت کر رہے تھے اپنی اندرونی سازشوں اورمسلمانوں کے خلاف خفیہ کوششوں سے خلافت اسلامی کو پریشان کر رکھا تھا۔ چنانچہ ان حالات سے مجبور ہو کر حضرت عمرؓنے اپنے عہد خلافت میں ان یہودیوں کی اندرونی سازشوں کو ختم کرنے اور ان کی ناپاک کوششوں کو خاک میں ملانے کے لیے ان کو خبیر سے جلا وطن کر دیا اور وہاں مسلمانوں کوآباد کر دیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر غیر مسلم مفسد سازشی نہ ہوں تو مسلمان ان سے حسب ضرورت اپنی نوکری کراسکتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان کے لیے اگر غیر مسلم کے ہاں اپنے مذہب کی ذلت اور خواری کا احتمال ہو تو مناسب نہیں کہ وہ ایسی جگہ نوکری کرے۔ قال ابن بطال عامۃ الفقہاءیجیزون استجارہم عند الضرورۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی عام فقہائے نے غیر مسلموں سے مزدوری کرانے کو بوقت ضروری جائز قرار دیا ہے۔ صاحب المہذب لکھتے ہیں : و اختلفوا فی الکافر اذا استاجر مسلما اجارۃ معینۃ فمنہم من قال فیہ قولان لانہ عقد یتضمن حبس المسلم فصار کبیع العبد المسلم منہ و منہم ما قال یصح قولاً واحدا لان علیا کرم اللہ وجہہ کان یستسقی الماءلامراۃ یہودیۃ۔ ( المہذب جزءرابع عشر، ص : 259 ) الشرح : خبر علی رواہ احمد و جود الحافظ ابن حجر اسنادہ و لفظہ جعت مراۃ جوعا شدیدا فخرجت لطلب العمل فی عوالی المدینۃ فاذا انا بامراۃ قد جمعت مدرا فظنتہا ترید بلہ فقاطعتہا کل ذنوب علی تمرۃ فمددت ستۃ عشر ذنوبا حتی مجلت یدای ثم اتیتہا فعدت لی ست عشر تمرۃ فاتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاخبرتہ فاکل معی منہا و ہذا الخبر یدل دلالۃ یعجز القلم من استقصاءماتو حی بہ من بیان ما کانت الصحابۃ علیہ من الحاجۃ و شدۃ الفاقۃ و الصبر علی الجوع و بذل الوسع و اتعاب النفس فی تحصیل القوام من العیش للتعفف عن السوال و تحمل المتن و ان تاجیر النفس لا یعد دنائۃ و ان کان المستاجر غیر شریف او کافر او الاجیر من اشراف الناس و عظماءہم و قد اوردہ صاحب المنتقی لیستدل بہ علی جواز الاجارۃ معاودۃ یعنی ان یفعل الاجیر عددا معلوماً من العمل بعدد معلوم من الاجرۃ ( کتاب مذکور ص 291 ) یعنی علماءنے اس میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی کافر کسی مسلمان کو بطور مزدور رکھے تو کیا فتوی ہے۔ اس بارے میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ مسلمان کو ایک طرح سے قید کرنا، گویا اس مسلمان بندے کو بطور غلام بیچنا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ جائز ہے اس لیے کہ حضرت علی ؓ نے ایک یہودی عورت کے ہاں مزدوری پر پانی کھینچا تھا۔ خود ان کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک دفعہ مجھ کو سخت بھوک نے ستایا تو میں اطراف مدینہ میں مزدوری کرنے نکلا۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ کچھ مٹی کو گیلا کرانا چاہتی تھی۔ میں نے اس سے ہر ایک ڈول کے بدلے میںایک کھجور پر معاملہ طے کر لیا۔ اور میں نے ایک دم سولہ ڈول کھینچ ڈالے یہاںتک کہ میرے ہاتھوں میں چھالے ہو گئے۔ پھر میں اس عورت کے پاس آیا اور اس نے مجھ کو سولہ عدد کھجور دے دیں جن کو لے کر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو جملہ تفصیلات سے آگاہ کیا، چنانچہ ان کھجوروں میں سے میرے ساتھ آپ نے بھی چند کھجوروں کو تناول فرمایا۔ صحابہ کرام ابتداءاسلام میں کس قدر تکالیف میں مبتلا تھے۔ اور وہ بھوک پر کس قدر صبر کرتے تھے اور وہ سوال سے بچ کر اپنی شکم پری کے لیے کیسی کیسی سخت مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے یہ اس خبر سے واضح ہے۔ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوا کہ شریف نفس کو کسی کی مزدوری میں ڈال دینا کوئی ذلیل پیشہ نہیں ہے اگرچہ مزدوری کرانے والا خود ذلیل بھی کیوں نہ ہو یا کافر بھی کیوں نہ ہو۔ اور اگرچہ مزدوری کرنے والا بڑا شریف آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ صاحب منتقی نے اس سے یہ ثابت کیا کیا ہے مزدوری مقررہ کام کے ساتھ مقررہ اجرت پر کرناجائز ہے۔ آج یکم محرم 1390ھ کو کعبہ شریف میں بوقت تہجد یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور2 صفر90ھ یوم جمعہ میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گئی۔

2282.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر  ؓ نے ہجرت کا راستہ بتلانے کے لیے ایک ماہر شخص کو رکھا جو بنو دیل سے تھا۔ یہ بنو عہد بن عدی کا ایک خاندان ہے۔ خریت راستہ بتانے میں ماہر شخص کو کہتے ہیں۔۔۔ شخص عاص بن وائل کے خاندان سے معاہدے میں بڑا مضبوط شریک رہا تھا اور کفار قریش کے دین پر تھا۔ دونوں حضرات نے اس پر اعتماد کیا اور اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالے کردیں اور اس سے تین دن کے بعد غارثور میں آنے کا وعدہ لیا، چنانچہ وہ تیسری رات کی صبح کو دونوں سواریاں لے کر ان کے پاس آیا تو آپ دونوں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ عامر بن فہیرہ بھی چلے اور وہ رہن بھی جو قبیلہ دیل سے تھا۔ وہ انھیں مکے کے زیریں علاقے، یعنی ساحل سمندر کے ر استے پر لے گیا۔