قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ (بَابٌ: فِي كَمْ يُقْرَأُ القُرْآنُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ}

5092. حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْكَحَنِي أَبِي امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ فَكَانَ يَتَعَاهَدُ كَنَّتَهُ فَيَسْأَلُهَا عَنْ بَعْلِهَا فَتَقُولُ نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ لَمْ يَطَأْ لَنَا فِرَاشًا وَلَمْ يُفَتِّشْ لَنَا كَنَفًا مُنْذُ أَتَيْنَاهُ فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَيْهِ ذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْقَنِي بِهِ فَلَقِيتُهُ بَعْدُ فَقَالَ كَيْفَ تَصُومُ قَالَ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ وَكَيْفَ تَخْتِمُ قَالَ كُلَّ لَيْلَةٍ قَالَ صُمْ فِي كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةً وَاقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ قَالَ قُلْتُ أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْجُمُعَةِ قُلْتُ أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ أَفْطِرْ يَوْمَيْنِ وَصُمْ يَوْمًا قَالَ قُلْتُ أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ صُمْ أَفْضَلَ الصَّوْمِ صَوْمَ دَاوُدَ صِيَامَ يَوْمٍ وَإِفْطَارَ يَوْمٍ وَاقْرَأْ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ مَرَّةً فَلَيْتَنِي قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاكَ أَنِّي كَبِرْتُ وَضَعُفْتُ فَكَانَ يَقْرَأُ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ السُّبْعَ مِنْ الْقُرْآنِ بِالنَّهَارِ وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ يَعْرِضُهُ مِنْ النَّهَارِ لِيَكُونَ أَخَفَّ عَلَيْهِ بِاللَّيْلِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَقَوَّى أَفْطَرَ أَيَّامًا وَأَحْصَى وَصَامَ مِثْلَهُنَّ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتْرُكَ شَيْئًا فَارَقَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي ثَلَاثٍ وَفِي خَمْسٍ وَأَكْثَرُهُمْ عَلَى سَبْعٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔“

5092.

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد گرامی نے میرا نکاح ایک خاندانی عورت سے کر دیا اور وہ ہمیشہ اپنی بہو کی خبر گیری کرتے رہتے اور اس سے اس کے شوہر (اپنے بیٹے) کا حال دریافت کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر اچھا آدمی ہے البتہ جب سے میں اس کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم نہیں رکھا اور کبھی میرے کپڑے ہی میں ہاتھ ڈالا ہے۔ جب بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تو میرے والد گرامی نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا ”مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ “ چنانچہ اس کے بعد میں نےآپ ﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے دریافت فرمایا: تم روزے کیسے رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہر روز روزے سے ہوتا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟“  میں نے عرض کی: ہر رات قرآن مجید ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو اور ہر مہینے میں ایک بار قرآن ختم کیا کرو۔“ میں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر ہفتے میں تین روزے رکھا کرو۔“ میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: دو دن افطار کرو اور ایک دن روزہ رکھو۔“ میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر وہ افضل روزے رکھو جو سیدنا داود ؑ کے روزے ہیں ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور سات دن میں ایک بار قرآن ختم کرو۔“ (سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کہا کرتے تھے: ) کاش! میں رسول اللہ ﷺ کی رخصت کو قبول کرلیتا کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں۔ بہرحال سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ سنا دیتے تھے اور جو وہ پڑھتے دن کے وقت اس کا دور کر لیتے تھے تا کہ رات کو پڑھنے میں آسانی رہے اور جب قوت حاصل کرنا چاہتے تو چند روز افطار کر لیتے تھے اور افطار کے دن شمار کر لیتے پھر ان دنوں کے برابر روزے رکھ لیتے کیونکہ وہ اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ وہ ایسی شے ترک کر دیں جس پر پابندی کرتے ہوئے نبی ﷺ سے مفارقت کی تھی ابو عبد اللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں بعض نے پانچ دن میں قرآن ختم کرنے کا ذکر کیا ہے، لیکن بیشتر روایات سات رات میں قرآن ختم کرنے کی ہیں۔