Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: Offering prayers of Witr while on a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1000.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سفر کے دوران میں نماز شب اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے تھے، اس کا جدھر کو بھی منہ ہو جاتا۔ اسی طرح نماز وتر بھی اپنی سواری پر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہ پڑھتے تھے۔
تشریح:
(1) امام ضحاک ؒ وغیرہ کا موقف ہے کہ دوران سفر میں نماز وتر پڑھنا مشروع نہیں۔ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام نووی ؒ نے اس موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور دوران سفر میں نماز وتر پڑھنے کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ دوران سفر وتر نہ پڑھنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے کہ اگر مجھے دوران سفر نفل پڑھنے ہوتے تو میں فرض نماز پوری ادا کرتا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1594 (694)) لیکن اس سے فرض نماز سے پہلے اور بعد والی سنتیں مراد ہیں، وتر مراد نہیں، جس کی وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ سفر کیا، وہ ظہر اور عصر کی صرف دو دو رکعت پڑھتے تھے، ان سے پہلے اور بعد کچھ نہ ادا کرتے تھے۔ اگر میں نے انہیں پڑھنا ہوتا تو فرض نماز ہی پوری ادا کر لیتا۔ (جامع الترمذي، السفر، حدیث:544، فتح الباري:630/2) (2) دراصل اس حدیث سے امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز وتر فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتی تو اسے بھی دیگر فرض نمازوں کی طرح سواری پر نہ پڑھا جاتا، کیونکہ سواری پر فرض نماز نہ پڑھنے کی حدیث میں صراحت ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ نماز وتر فرض نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
986
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1000
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1000
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1000
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سفر کے دوران میں نماز شب اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے تھے، اس کا جدھر کو بھی منہ ہو جاتا۔ اسی طرح نماز وتر بھی اپنی سواری پر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہ پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام ضحاک ؒ وغیرہ کا موقف ہے کہ دوران سفر میں نماز وتر پڑھنا مشروع نہیں۔ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام نووی ؒ نے اس موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور دوران سفر میں نماز وتر پڑھنے کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ دوران سفر وتر نہ پڑھنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے کہ اگر مجھے دوران سفر نفل پڑھنے ہوتے تو میں فرض نماز پوری ادا کرتا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1594 (694)) لیکن اس سے فرض نماز سے پہلے اور بعد والی سنتیں مراد ہیں، وتر مراد نہیں، جس کی وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ سفر کیا، وہ ظہر اور عصر کی صرف دو دو رکعت پڑھتے تھے، ان سے پہلے اور بعد کچھ نہ ادا کرتے تھے۔ اگر میں نے انہیں پڑھنا ہوتا تو فرض نماز ہی پوری ادا کر لیتا۔ (جامع الترمذي، السفر، حدیث:544، فتح الباري:630/2) (2) دراصل اس حدیث سے امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز وتر فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتی تو اسے بھی دیگر فرض نمازوں کی طرح سواری پر نہ پڑھا جاتا، کیونکہ سواری پر فرض نماز نہ پڑھنے کی حدیث میں صراحت ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ نماز وتر فرض نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ سفر میں اپنی سواری ہی پر رات کی نماز اشاروں سے پڑھ لیتے تھے، خواہ سواری کا رخ کسی طرف ہو جاتا آپ اشاروں سے پڑھتے رہتے مگر فرائض اس طرح نہیں پڑھتے تھے اور وتر اپنی اونٹنی پر پڑھ لیتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) used to offer (Nawafil) prayers on his Rahila (mount) facing its direction by signals, but not the compulsory prayer. He also used to pray Witr on his (mount) Rahila.