Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: To invoke Allah for rain while standing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1023.
حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ۔۔ اور وہ نبی ﷺ کے صحابی تھے ۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کرنے کے لیے لوگوں کے ہمراہ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے کھڑے ہو کر دعا کی، پھر قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا، چنانچہ لوگوں پر خوب بارش ہوئی۔
تشریح:
(1) دعا کرتے وقت عجز و انکسار مقصود ہوتا ہے، اس لیے بارش کے لیے کھڑے ہو کر دعا کرنی چاہیے۔ (2) حضرت عبداللہ بن یزید ؓ کی موقوف روایت کے بعد مرفوع روایت بیان کی گئی ہے تاکہ موقوف سے اس کی تفسیر ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی تھی، منبر پر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ (3) عبداللہ بن یزید سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے انہیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کے لیے نماز استسقاء کا اہتمام کریں، چنانچہ لوگ باہر میدان میں گئے۔ ان کے ہمراہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم تھے۔ سب نے وہاں بارش کی دعا کی تھی۔ یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ (4) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے بعد نماز استسقاء پڑھی جائے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ نماز کا اہتمام پہلے ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک دونوں طرح جائز ہے۔ (فتح الباري:862/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1008
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1023
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1023
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1023
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ۔۔ اور وہ نبی ﷺ کے صحابی تھے ۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کرنے کے لیے لوگوں کے ہمراہ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے کھڑے ہو کر دعا کی، پھر قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی چادر کو الٹ پلٹ کیا، چنانچہ لوگوں پر خوب بارش ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) دعا کرتے وقت عجز و انکسار مقصود ہوتا ہے، اس لیے بارش کے لیے کھڑے ہو کر دعا کرنی چاہیے۔ (2) حضرت عبداللہ بن یزید ؓ کی موقوف روایت کے بعد مرفوع روایت بیان کی گئی ہے تاکہ موقوف سے اس کی تفسیر ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی تھی، منبر پر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ (3) عبداللہ بن یزید سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے انہیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کے لیے نماز استسقاء کا اہتمام کریں، چنانچہ لوگ باہر میدان میں گئے۔ ان کے ہمراہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم تھے۔ سب نے وہاں بارش کی دعا کی تھی۔ یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ (4) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے بعد نماز استسقاء پڑھی جائے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ نماز کا اہتمام پہلے ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک دونوں طرح جائز ہے۔ (فتح الباري:862/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان حکیم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ ان کے چچا عبداللہ بن زید نے جو صحابی تھے، انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ لوگوں کو ساتھ لے کر استسقاء کے لیے نکلے اور آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی کھڑے اللہ تعالی سے دعا کی، پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنی چادر پلٹی چنانچہ بارش خوب ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abbas bin Tamim (RA): That his uncle (who was one of the companions of the Prophet) had told him, "The Prophet (ﷺ) went out with the people to invoke Allah for rain for them. He stood up and invoked Allah for rain then faced the Qibla and turned his cloak (inside out) and it rained."