باب: فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Whoever offered Nawafil not after the compulsory Salat but before it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے سفر میں فجر کی سنتوں کو پڑھا ہے۔
1103.
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ام ہانی ؓ کے علاوہ ہمیں کسی شخص نے نہیں بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کو (دوران سفر) چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ نے ذکر کیا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نے آپ کو اس سے زیادہ ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، ہاں! اس کے رکوع و سجود کو پورا کرتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1083
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1103
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1103
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1103
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
دوران سفر نوافل پڑھنے کے متعلق تین اقوال ہیں: (1) مطلق طور پر نفل پڑھنے منع ہیں۔ (2) مطلق طور پر نفل پڑھے جا سکتے ہیں۔ (3) سنن راتبہ منع ہیں، البتہ مطلق نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے، چنانچہ مجاہد کہتے ہیں: میں مدینہ سے مکہ تک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہم سفر رہا ہوں، آپ اپنی سواری پر نفل پڑھتے جدھر کو بھی اس کا منہ ہوتا، البتہ فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر ادا کرتے۔ (فتح الباری:2/747) دوران سفر فجر کی دو سنت پڑھنے کے متعلق احادیث میں وضاحت ہے، چنانچہ دوران سفر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گہری نیند آ گئی اور دن چڑھے فجر کی نماز ادا کی ۔۔ تو بروایت حضرت ابو قتادہ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم آپ نے نماز فجر سے پہلے دو سنتیں بھی ادا کیں۔ دوران سفر ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تقریبا اٹھارہ سفر کیے ہیں آپ سورج ڈھلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ (سنن ابی داود،صلاۃ السفر،حدیث:1222) بعض علماء کا خیال ہے کہ مذکورہ دو رکعت ظہر کی دو سنت نہیں بلکہ یہ سنت زوال ہیں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری:2/747) الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھیں، ہاں! دیگر قسم کے نوافل، اشراق اور تہجد وغیرہ پڑھنا منقول ہے۔ اسی طرح نماز فجر کی دو سنتیں اور وتر پڑھنا بھی ثابت ہے۔
اور نبی کریم ﷺ نے سفر میں فجر کی سنتوں کو پڑھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ام ہانی ؓ کے علاوہ ہمیں کسی شخص نے نہیں بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کو (دوران سفر) چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ نے ذکر کیا کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نے آپ کو اس سے زیادہ ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، ہاں! اس کے رکوع و سجود کو پورا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
نبی اکرم ﷺنے دوران سفر فجر کی سنتیں ادا کیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ا بن ابی لیلیٰ نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی نے یہ خبرنہیں دی کہ رسول اللہ ﷺ کو انہوں نے چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہاں ام ہانی ؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر غسل کیا تھا اور اس کے بعد آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھی تھیں، میں نے آپ کو کبھی اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abu Laila (RA): Only Um Hani told us that she had seen the Prophet (ﷺ) offering the Duha (forenoon prayer). She said, "On the day of the conquest of Makkah, the Prophet (ﷺ) took a bath in my house and offered eight Rakat. I never saw him praying such a light prayer but he performed perfect prostration and bowing.