باب: سفر اگر سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہو تو پہلے ظہر پڑھ لے پھر سوار ہو
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Whenever a person travels after midday, he should offer the Zuhr prayers and the ride for the journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1112.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے تو نماز ظہر کو وقت عصر تک مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے دونوں کو جمع کر لیتے۔ اگر سفر کے آغاز سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر پڑھ کر سوار ہوتے۔
تشریح:
اس روایت میں زوال آفتاب کے بعد سفر شروع کرنے کی صورت میں صرف نماز ظہر پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی یہ صورت ہے کہ پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے جسے اصطلاح میں جمع تاخیر کہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت کو جب امام اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ اگر سفر میں ہوتے اور سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھ لیتے پھر سفر کا آغاز کرتے۔ اس روایت کا تقاضا ہے کہ جمع تقدیم بھی جائز ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام حاکم ؒ نے اربعین میں بیان کیا ہے کہ اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو جمع کرتے اور پھر سوار ہوتے۔ اسے اسحاق بن راہویہ کی روایت کے لیے بطور متابعت پیش کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:753/2) جمع تقدیم کے لیے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ زوال آفتاب کے بعد سفر کا ارادہ فرماتے تو ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا فرما لیتے۔ (مسند أحمد:241/5) رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایسا کیا تھا۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:163/3) حضرت انس بن مالک ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پسندیدہ جگہ پر پڑاؤ کرتے تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے، پھر سفر کا آغاز کرتے اور اگر مناسب جگہ میسر نہ آتی تو اپنے سفر کو جاری رکھتے، پھر کسی مناسب مقام پر اتر کر ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرما لیتے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:163/3) اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے، تاہم امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو بڑے جزم و وثوق کے ساتھ موقوف بھی بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی دوسری ہنگامی ضرورت کے پیش نظر بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:169/3) الغرض نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سفر، خوف، بیماری، بارش، سخت آندھی یا کسی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں، تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے کاروباری حضرات کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (فتح الباري:753/2) اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بلا عذر نمازوں کو جمع کیا تھا، حالانکہ اس روایت میں منقول عذر کی وضاحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1636(705))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1089
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1112
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1112
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1112
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے تو نماز ظہر کو وقت عصر تک مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے دونوں کو جمع کر لیتے۔ اگر سفر کے آغاز سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر پڑھ کر سوار ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں زوال آفتاب کے بعد سفر شروع کرنے کی صورت میں صرف نماز ظہر پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی یہ صورت ہے کہ پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے جسے اصطلاح میں جمع تاخیر کہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت کو جب امام اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ اگر سفر میں ہوتے اور سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھ لیتے پھر سفر کا آغاز کرتے۔ اس روایت کا تقاضا ہے کہ جمع تقدیم بھی جائز ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام حاکم ؒ نے اربعین میں بیان کیا ہے کہ اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو جمع کرتے اور پھر سوار ہوتے۔ اسے اسحاق بن راہویہ کی روایت کے لیے بطور متابعت پیش کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:753/2) جمع تقدیم کے لیے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ زوال آفتاب کے بعد سفر کا ارادہ فرماتے تو ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا فرما لیتے۔ (مسند أحمد:241/5) رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایسا کیا تھا۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:163/3) حضرت انس بن مالک ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پسندیدہ جگہ پر پڑاؤ کرتے تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے، پھر سفر کا آغاز کرتے اور اگر مناسب جگہ میسر نہ آتی تو اپنے سفر کو جاری رکھتے، پھر کسی مناسب مقام پر اتر کر ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرما لیتے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:163/3) اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے، تاہم امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو بڑے جزم و وثوق کے ساتھ موقوف بھی بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی دوسری ہنگامی ضرورت کے پیش نظر بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:169/3) الغرض نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سفر، خوف، بیماری، بارش، سخت آندھی یا کسی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں، تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے کاروباری حضرات کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (فتح الباري:753/2) اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بلا عذر نمازوں کو جمع کیا تھا، حالانکہ اس روایت میں منقول عذر کی وضاحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1636(705))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر عصر کا وقت آنے تک نہ پرھتے۔ پھر کہیں (راستے میں) ٹھہر تے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے لیکن اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھتے پھر سوار ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) started the journey before noon, he used to delay the Zuhr prayer till the time for the 'Asr prayer and then he would dismount and pray them together; and whenever the sun declined before he started the journey he used to offer the Zuhr prayer and then ride (for the journey). ________