Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: To perform a long prostration in the Tahajjud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1123.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ یہ آپ کی (رات کی) نماز تھی۔ اس میں آپ اتنا طویل سجدہ کرتے کہ اپنا سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے، نیز فجر سے پہلے دو سنت ادا کرتے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آپ کو نماز فجر کی اطلاع دیتا۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد میں بہت لمبا سجدہ کرتے تھے۔ آپ سجدے میں اس قدر ٹھہرتے کہ کوئی شخص آپ کے سر مبارک اٹھانے سے پہلے پچاس آیات پڑھ لیتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد ایک انفرادی عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس عمل کو تنہا ادا کرتے تھے۔ دوسری نمازوں میں مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے آپ ہلکی نماز پڑھتے تھے۔ نماز تہجد میں سجدہ اس لیے طویل ہوتا تھا کہ اس میں دعائیں فرماتے اور اللہ کی بارگاہ میں تواضع اور عاجزی فرماتے تاکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ (2) امام نسائی ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب قدر السجدة بعد الوتر)’’وتر کے بعد سجدے کی مقدار۔‘‘(سنن النسائي، قیام اللیل، باب:63) ہمارے نزدیک یہ عنوان محل نظر ہے، کیونکہ مذکورہ سجدہ نماز ہی میں تھا، نماز سے باہر نہیں تھا۔ انفرادی سجدہ صرف سجدۂ تلاوت ہے یا کسی حد تک سجدۂ شکر کی گنجائش ہے، تاہم نماز وتر کے بعد انفرادی سجدہ کرنا صحیح نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1099
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1123
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1123
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1123
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ یہ آپ کی (رات کی) نماز تھی۔ اس میں آپ اتنا طویل سجدہ کرتے کہ اپنا سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے، نیز فجر سے پہلے دو سنت ادا کرتے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آپ کو نماز فجر کی اطلاع دیتا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد میں بہت لمبا سجدہ کرتے تھے۔ آپ سجدے میں اس قدر ٹھہرتے کہ کوئی شخص آپ کے سر مبارک اٹھانے سے پہلے پچاس آیات پڑھ لیتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد ایک انفرادی عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس عمل کو تنہا ادا کرتے تھے۔ دوسری نمازوں میں مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے آپ ہلکی نماز پڑھتے تھے۔ نماز تہجد میں سجدہ اس لیے طویل ہوتا تھا کہ اس میں دعائیں فرماتے اور اللہ کی بارگاہ میں تواضع اور عاجزی فرماتے تاکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ (2) امام نسائی ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب قدر السجدة بعد الوتر)’’وتر کے بعد سجدے کی مقدار۔‘‘(سنن النسائي، قیام اللیل، باب:63) ہمارے نزدیک یہ عنوان محل نظر ہے، کیونکہ مذکورہ سجدہ نماز ہی میں تھا، نماز سے باہر نہیں تھا۔ انفرادی سجدہ صرف سجدۂ تلاوت ہے یا کسی حد تک سجدۂ شکر کی گنجائش ہے، تاہم نماز وتر کے بعد انفرادی سجدہ کرنا صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ (رات میں) گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ کی یہی نماز تھی۔ لیکن اس کے سجدے اتنے لمبے ہوا کرتے کہ تم میں سے کوئی نبی ﷺ کے سر اٹھانے سے قبل پچاس آیتیں پڑھ سکتا تھا (اور طلوع فجر ہونے پر) فجر کی نماز سے پہلے آپ ﷺ دو رکعت سنت پڑھتے۔ اس کے بعد دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔ آخر مؤذن آپ کو نما ز کے لیے بلانے آتا۔
حدیث حاشیہ:
فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے داہنی کروٹ پر لیٹنا آنحضرت ﷺ کا معمول تھا۔ جس قدر روایات فجر کی سنتوں کے بارے میں مروی ہیں ان سے بیشتر میں اس ''اضطجاع'' کا ذکر ملتا ہے۔ اسی لیے اہل حدیث کا یہ معمول ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی ہر سنت اور آپ کی ہر مبارک عادت کو اپنے لیے سرمایہ نجات جانتے ہیں۔ پچھلے کچھ متعصب ومتشدد قسم کے بعض حنفی علماء نے اس لیٹنے کو بدعت قرار دے دیا تھا مگر آج کل سنجیدگی کا دور ہے اس میں کوئی اوٹ پٹانگ بات ہانک دینا کسی بھی اہل علم کے لیے زیبا نہیں، اسی لیے آج کل کے سنجیدہ علماء احناف نے پہلے متشدد خیال والوں کی تردید کی ہے اور صاف لفظوں میں آنحضرت ﷺ کے اس فعل کا اقرار کیا ہے۔ چنانچہ صاحب تفہیم البخاری کے یہاں یہ الفاظ ہیں: ’’اس حدیث میں سنت فجر کے بعد لیٹنے کا ذکر ہے۔ احناف کی طرف اس مسئلے کی نسبت غلط ہے کہ ان کے نزدیک سنت فجر کے بعد لیٹنا بدعت ہے۔ اس میں بدعت کا کوئی سوال ہی نہیں۔ یہ تو حضور اکرم ﷺ کی عادت تھی، عبادات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں البتہ ضروری سمجھ کر فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا پسندیدہ نہیں خیال کیا جا سکتا، اس حیثیت سے کہ یہ حضور اکرم ﷺ کی ایک عادت تھی اس میں اگر آپ ﷺ کی اتباع کی جائے تو ضرور اجر وثواب ملے گا۔‘‘ فاضل موصوف نے بہرحال اس عادت نبوی پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر و ثواب کا فتویٰ دے ہی دیا ہے۔ باقی یہ کہنا کہ عبادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں غلط ہے، موصوف کو معلوم ہو گا کہ عبادت ہر وہ کام ہے جو آنحضرت ﷺ نے دینی امور میں تقرب الی اللہ کے لیے انجام دیا۔ آپ ﷺ کا یہ لیٹنا بھی تقرب الی اللہ ہی کے لیے ہوتا تھا کیونکہ دوسری روایات میں موجود ہے کہ آپ ﷺ اس وقت لیٹ کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ «اللهُمَّ اجْعَلْ لِي فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَمِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ شِمَالِي نُورًا، وَمِنْ بَيْنِ يَدَيَّ نُورًا، وَمِنْ خَلْفِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي نَفْسِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًااللهُمَّ أَعْطِنِي نُورًا».(صحیح مسلم) اس دعا کے بعد کون ذی عقل کہہ سکتا ہے کہ آپ کا یہ کام محض عادت ہی سے متعلق تھا اور بالفرض آپ ﷺ کی عادت ہی سہی بہرحال آپ کے سچے فدائیوں کے لیے آپ ﷺ کی ہر ادا آپ کی ہر عادت آپ کا ہر طور طریقہ زندگی باعث صد فخر ومباہات ہے۔ اللہ عمل کی توفیق بخشے آمین۔
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست وگر با ونہ رسیدی تمام بولبہی است
آپ ﷺ سجدے میں یہ بار بار کہا کرتے: سُبحنَكَ اللھم رَبنَا وبِحمدِكَ اللھم اغفِرلِي۔ ایک روایت میں یوں ہے: سُبحنَكَ لا إلهَ إِلا أَنتَ۔ سلف صالحین بھی آنحضرت ﷺ کی پیروی میں لمبا سجدہ کرتے۔ عبد اللہ بن زبیر ؓ اتنی دیر تک سجدہ میں رہتے کہ چڑیاں اتر کر ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتیں اور سمجھتیں کہ یہ کوئی دیوار ہے (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to offer eleven Rakat and that was his prayer. He used to prolong the prostration to such an extent that one could recite fifty verses (of the Qur'an) before he would lift his head. He used to pray two Rakat (Sunna) before the Fajr prayer and then used to lie down on his right side till the call-maker came and informed him about the prayer. ________