Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: It is disliked to exaggerate in matters of worship)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1150.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ (مسجد میں) داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ رسی کیسی ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یہ رسی حضرت زینب ؓ نے لٹکا رکھی ہے کیونکہ جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! اسے کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص نشاط طبع کے ساتھ نماز پڑھے، جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘
تشریح:
معلوم ہوا کہ عبادت کرتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے متعلق بے جا سختی اور تشدد معیوب ہے کیونکہ ایسا کرنے سے طبیعت میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں جو قابل مذمت ہیں، نیز ایسا کرنا روح عبادت کے بھی خلاف ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مختلف طبائع بنائی ہیں: کچھ لوگ بڑے عزم اور حوصلے والے ہوتے ہیں۔ وہ عزائم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور رخصتوں کو اختیار نہیں کرتے۔ وہ تمام اوقات اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں، نیز جہاد کرتے وقت اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، لیکن ایسے باہمت لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو دین کی رخصتوں اور آسانیوں پر عمل کرتے ہیں۔ شریعت کے اکثر احکام ایسے ہی لوگوں سے متعلق ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ ضابطہ مقرر ہوا ہے کہ خواہ تھوڑا عمل ہو مگر ہمیشگی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو عبادات میں تشدد سے منع کیا گیا ہے تاکہ زیادہ عمل سے اُکتا نہ جائیں، لیکن رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے قدموں پر ورم آ جاتا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1126
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1150
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1150
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1150
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ (مسجد میں) داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ رسی کیسی ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یہ رسی حضرت زینب ؓ نے لٹکا رکھی ہے کیونکہ جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! اسے کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص نشاط طبع کے ساتھ نماز پڑھے، جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عبادت کرتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے متعلق بے جا سختی اور تشدد معیوب ہے کیونکہ ایسا کرنے سے طبیعت میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں جو قابل مذمت ہیں، نیز ایسا کرنا روح عبادت کے بھی خلاف ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مختلف طبائع بنائی ہیں: کچھ لوگ بڑے عزم اور حوصلے والے ہوتے ہیں۔ وہ عزائم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور رخصتوں کو اختیار نہیں کرتے۔ وہ تمام اوقات اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں، نیز جہاد کرتے وقت اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، لیکن ایسے باہمت لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو دین کی رخصتوں اور آسانیوں پر عمل کرتے ہیں۔ شریعت کے اکثر احکام ایسے ہی لوگوں سے متعلق ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ ضابطہ مقرر ہوا ہے کہ خواہ تھوڑا عمل ہو مگر ہمیشگی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو عبادات میں تشدد سے منع کیا گیا ہے تاکہ زیادہ عمل سے اُکتا نہ جائیں، لیکن رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے قدموں پر ورم آ جاتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو معمرعبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عبد الوارث بن سعد نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کی نظر ایک رسی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب ؓ نے باندھی ہے جب وہ ( نماز میں کھڑی کھڑی ) تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹکی رہتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں یہ رسی نہیں ہونی چاہیے اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو بیٹھ جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA) Once the Prophet (ﷺ) entered the Mosque and saw a rope hanging in between its two pillars. He said, "What is this rope?" The people said, "This rope is for Zainab who, when she feels tired, holds it (to keep standing for the prayer.)" The Prophet (ﷺ) said, "Don't use it. Remove the rope. You should pray as long as you feel active, and when you get tired, sit down."