Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: To offer Salat-ud-Duha when not traveling)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ عتبان بن مالک نے نبی کریمصﷺسے نقل کیا ہے۔
1178.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے میرے پیارے حبیب (رسول اللہ ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا انہیں ترک نہیں کروں گا۔ وہ یہ ہیں: ہر مہینے کے تین روزے، نماز اشراق اور سونے سے پہلے نماز وتر کی ادائیگی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی وصیت حضرت ابو درداء ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو بھی فرمائی تھی، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی، میں زندگی بھر ان پر عمل پیرا رہوں گا: ہر ماہ کے تین روزے اشراق کی نماز اور سونے سے قبل وتروں کو ادا کرنا۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1675(722)) حضرت ابوذر غفاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے بھی میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کی تھی۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں انہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔ مجھے نماز اشراق کی وصیت کی، سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی تاکید فرمائی اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق فرمایا۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2406) رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں حضرات کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ یہ حضرات مالدار نہیں تھے، اس لیے ایسی باتوں کی تلقین فرمائی جن کا تعلق مال سے نہیں۔ آپ نے نماز اور روزے کی تلقین فرمائی جو بدنی عبادات میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں حضر کا ذکر کیا ہے۔ حدیث میں سفر و حضر کا کوئی بیان نہیں، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کا تعلق حضر سے ہے، اگرچہ سفر و حضر دونوں سے بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف سفر کے ساتھ اسے معلق کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:75/3) دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نماز اشراق کے متعلق روایات کتب حدیث میں مروی ہیں، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس قدر پابندی کے ساتھ نماز اشراق پڑھتے کہ ہم کہنا شروع کر دیتے کہ اب آپ اسے ترک نہیں کریں گے، پھر آپ ایک عرصے تک اسے ادا نہ کرتے حتی کہ ہم کہتے اب آپ اسے نہیں پڑھیں گے۔ (جامع الترمذي، الوتر، حدیث:477) اس نماز کی فضیلت کے متعلق حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز اشراق پڑھنے (کے لیے مسجد چل کر جانے) والے کو عمرہ کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔‘‘(مسندأحمد:268/5) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام حاکم نے نماز اشراق کے متعلق ایک مستقل جز تصنیف کیا ہے جس میں تقریبا بیس صحابۂ کرام کی مرویات جمع کر کے نماز اشراق کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ (فتح الباري:72/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1151
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1178
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1178
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1178
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسند امام احمد کی ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں نماز اشراق کے نفل ادا کیے۔ گھر میں موجود افراد نے بھی آپ کی اقتدا میں ان نوافل کو ادا کیا۔ (مسند احمد:5/450)
یہ عتبان بن مالک نے نبی کریم صﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے میرے پیارے حبیب (رسول اللہ ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا انہیں ترک نہیں کروں گا۔ وہ یہ ہیں: ہر مہینے کے تین روزے، نماز اشراق اور سونے سے پہلے نماز وتر کی ادائیگی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی وصیت حضرت ابو درداء ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو بھی فرمائی تھی، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی، میں زندگی بھر ان پر عمل پیرا رہوں گا: ہر ماہ کے تین روزے اشراق کی نماز اور سونے سے قبل وتروں کو ادا کرنا۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1675(722)) حضرت ابوذر غفاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے بھی میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کی تھی۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں انہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔ مجھے نماز اشراق کی وصیت کی، سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی تاکید فرمائی اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق فرمایا۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2406) رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں حضرات کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ یہ حضرات مالدار نہیں تھے، اس لیے ایسی باتوں کی تلقین فرمائی جن کا تعلق مال سے نہیں۔ آپ نے نماز اور روزے کی تلقین فرمائی جو بدنی عبادات میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں حضر کا ذکر کیا ہے۔ حدیث میں سفر و حضر کا کوئی بیان نہیں، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کا تعلق حضر سے ہے، اگرچہ سفر و حضر دونوں سے بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف سفر کے ساتھ اسے معلق کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:75/3) دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نماز اشراق کے متعلق روایات کتب حدیث میں مروی ہیں، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس قدر پابندی کے ساتھ نماز اشراق پڑھتے کہ ہم کہنا شروع کر دیتے کہ اب آپ اسے ترک نہیں کریں گے، پھر آپ ایک عرصے تک اسے ادا نہ کرتے حتی کہ ہم کہتے اب آپ اسے نہیں پڑھیں گے۔ (جامع الترمذي، الوتر، حدیث:477) اس نماز کی فضیلت کے متعلق حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز اشراق پڑھنے (کے لیے مسجد چل کر جانے) والے کو عمرہ کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔‘‘(مسندأحمد:268/5) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام حاکم نے نماز اشراق کے متعلق ایک مستقل جز تصنیف کیا ہے جس میں تقریبا بیس صحابۂ کرام کی مرویات جمع کر کے نماز اشراق کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ (فتح الباري:72/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت عتبان بن مالک ؓ نے اسے نبیﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابرہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہوںنے کہا ہم سے عبا س جریری نے جو فروخ کے بیٹے تھے بیان کیا، ان سے ابو عثمان نہدی نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں صلوۃ ضحی کی نفی وارد ہوئی ہے وہ نفی سفر کی حالت سے متعلق ہے پھر بھی اس میں بھی وسعت ہے اور جن روایات میں اس نماز کے لیے اثبات آیا ہے وہاں حالت حضرمراد ہے۔ ہر ماہ میں تین دن کے روزوں سے ایام بیض یعنی13,14,15 تاریخوں کے روزے مراد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): My friend (the Prophet) advised me to do three things and I shall not leave them till I die, these are: To fast three days every month, to offer the Duha prayer, and to offer Witr before sleeping. ________