Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: What speech is prohibited during As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1200.
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں دوران نماز میں ایک دوسرے سے بات چیت کر لیتے تھے اور اپنی ضرورت و حاجت کو بھی ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ﴾ ’’تمام نمازوں (بالخصوص درمیانی نماز) کی حفاظت کرو۔‘‘ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا (اور دوان نماز میں گفتگو کرنے سے بھی ہمیں منع کر دیا گیا)۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز گفتگو کرنے کی ممانعت مدینہ طیبہ میں ہوئی کیونکہ حضرت زید بن ارقم ؓ انصاری ہیں اور وہ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے وہ بھی مدنی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی مدینہ منورہ ہی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور سلام عرض کیا تھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز میں اللہ کا ذکر ہونا چاہیے، اس لیے اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔‘‘ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں گفتگو کرنے کی حرمت اس آیت کریمہ سے ہوئی جو سورۂ بقرہ میں ہے۔ (فتح الباري:97/3) (2) بھول کر یا عدم علم کی بنا پر دوران نماز میں گفتگو کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی یا بھول کر کیے ہوئے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2043) نیز حضرت معاویہ بن حکم ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی کو دوران نماز میں چھینک آئی تو میں نے نماز ہی میں يرحمك الله کہہ دیا۔ اس پر لوگوں نے مجھے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ہائے! میری ماں مجھے گم پائے، کیا بات ہے؟ تم مجھے غصے سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیے جس سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی ایسا معلم نہیں دیکھا جو تعلیم دینے میں آپ سے بہتر ہو، اللہ کی قسم! آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ کرخت لہجہ ہی اختیار کیا بلکہ آپ نے نرمی سے فرمایا: ’’نماز میں انسانی گفتگو کی گنجائش نہیں بلکہ اس میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہونی چاہیے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1199(537)) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہالت کی وجہ سے اگر دوران نماز میں گفتگو ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے لیکن آپ نے اسے صرف اس حکم سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1170
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1200
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1200
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1200
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں دوران نماز میں ایک دوسرے سے بات چیت کر لیتے تھے اور اپنی ضرورت و حاجت کو بھی ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ﴾’’تمام نمازوں (بالخصوص درمیانی نماز) کی حفاظت کرو۔‘‘ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا (اور دوان نماز میں گفتگو کرنے سے بھی ہمیں منع کر دیا گیا)۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز گفتگو کرنے کی ممانعت مدینہ طیبہ میں ہوئی کیونکہ حضرت زید بن ارقم ؓ انصاری ہیں اور وہ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے وہ بھی مدنی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی مدینہ منورہ ہی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور سلام عرض کیا تھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز میں اللہ کا ذکر ہونا چاہیے، اس لیے اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔‘‘ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں گفتگو کرنے کی حرمت اس آیت کریمہ سے ہوئی جو سورۂ بقرہ میں ہے۔ (فتح الباري:97/3) (2) بھول کر یا عدم علم کی بنا پر دوران نماز میں گفتگو کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی یا بھول کر کیے ہوئے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2043) نیز حضرت معاویہ بن حکم ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی کو دوران نماز میں چھینک آئی تو میں نے نماز ہی میں يرحمك الله کہہ دیا۔ اس پر لوگوں نے مجھے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ہائے! میری ماں مجھے گم پائے، کیا بات ہے؟ تم مجھے غصے سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیے جس سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی ایسا معلم نہیں دیکھا جو تعلیم دینے میں آپ سے بہتر ہو، اللہ کی قسم! آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ کرخت لہجہ ہی اختیار کیا بلکہ آپ نے نرمی سے فرمایا: ’’نماز میں انسانی گفتگو کی گنجائش نہیں بلکہ اس میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہونی چاہیے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1199(537)) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہالت کی وجہ سے اگر دوران نماز میں گفتگو ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے لیکن آپ نے اسے صرف اس حکم سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کوعیسی بن یونس نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں حارث بن شیل نے، انہیں ابوعمرو بن سعد بن ابی ایاس شیبانی نے بتایا کہ مجھ سے زید بن ارقم ؓ نے بتلایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کردیتا۔ پھر آیت ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ﴾ الخ اتری اور ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم ہوا۔
حدیث حاشیہ:
آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’نمازون کا خیال رکھو اوربیچ والی نماز کا اور اللہ کے سامنے ادب سے چپکے کھڑے رہو۔‘‘ (سورۃ بقرة) درمیانی نماز سے عصر کی نماز مراد ہے۔ آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز میں کوئی بھی دنیاوی بات کرنا قطعا منع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Arqam (RA): In the life-time of the Prophet (ﷺ) we used to speak while praying, and one of us would tell his needs to his companions, till the verse, 'Guard strictly your prayers (2.238) was revealed. After that we were ordered to remain silent while praying. ________