باب: اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے۔
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: If an animal runs away while one is in Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور قتادہ نے کہا کہ` اگر کسی کا کپڑا چور لے بھاگے تو اس کے پیچھے دوڑے اور نماز چھوڑ دے۔
1211.
حضرت ازرق بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم علاقہ اہواز میں خارجیوں سے مصروف جنگ تھے۔ میں نہر کے کنارے پر تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنی سواری کی لگام ہاتھ میں تھامے نماز پڑھ رہا ہے۔ دریں اثنا اس کی سواری شوخی کرنے لگی تو وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ شعبہ نے کہا: وہ شخص حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ تھے۔ انہیں دیکھ کر خارجیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ! تو اس بوڑھے کو ایسا ایسا کر دے۔ جب شیخ محترم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ دراصل میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چھ سات یا آٹھ جنگوں میں شرکت کی ہے۔ میں نے لوگوں پر آپ کی طرف سے سہولت اور آسانی کو دیکھا ہے، اس لیے مجھے اپنی سواری کے ہمراہ رہنا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں اسے چھوڑ دوں اور وہ اپنے اصبطل میں چلی جائے، پھر مجھے تکلیف ہو۔
تشریح:
(1) یہ واقعہ 65 ہجری میں پیش آیا جبکہ خوارج نے نافع بن ازرق کی سرکردگی میں اہل بصرہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ دریائے دجیل کے کنارے نماز عصر پڑھ رہے تھے اور دوران نماز میں ان کی سواری بدکی اور قبلے کی جانب چلنے لگی۔ حضرت ابو برزہ بھی اس کے ساتھ ہو لیے۔ آخر کار اسے ساتھ لے کر الٹے پاؤں واپس آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نماز جاری رکھی تھی وگرنہ وہ الٹے پاؤں واپس آنے کا تکلف نہ کرتے۔ اس واقعے سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اس سلسلے میں سختی کرتے اور کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جانور کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اپنی نماز کو قطع نہ کیا جائے۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی کو اپنے مال و اسباب کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز قطع کرنا جائز ہے۔ (فتح الباري:106/3) (2) ابن بطال نے کہا ہے کہ دوران نماز میں اگر کسی کی سواری دوڑ جائے تو وہ نماز توڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے دوران نماز اپنے جانور کی ہلاکت کا خطرہ محسوس کیا یا کسی بچے کو دیکھا کہ وہ کنویں کے کنارے کھڑا ہے اور اس میں گرنے کے قریب ہے یا کسی اندھے کے گڑھے میں گرنے کا اندیشہ محسوس کیا اور وہ مذکورہ امور کی مدافعت پر قادر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز توڑ کر ان کی حفاظت کرے۔ یہ ناممکن ہے کہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ ایسا کریں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی مشاہدہ نہ کیا ہو۔ ابن تین نے کہا ہے کہ اگر کوئی دوران نماز میں گراں قدر چیز کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے نماز توڑنا جائز ہے اور اگر معمولی چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز میں مصروف رہنا بہتر ہے۔ (عمدة القاري:615/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1181
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1211
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1211
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1211
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
اس اثر کو مصنف عبدالرزاق میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اگر دوران نماز بچے کو دیکھے جو کنویں کے کنارے پر کھڑا ہے اور اس کے گرنے کا اندیشہ ہے تو نماز چھوڑ کر اسے بچانے کی فکر کرے۔ (المصنف لعبدالرزاق:2/262،وفتح الباری:3/106)
´اور قتادہ نے کہا کہ` اگر کسی کا کپڑا چور لے بھاگے تو اس کے پیچھے دوڑے اور نماز چھوڑ دے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ازرق بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم علاقہ اہواز میں خارجیوں سے مصروف جنگ تھے۔ میں نہر کے کنارے پر تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنی سواری کی لگام ہاتھ میں تھامے نماز پڑھ رہا ہے۔ دریں اثنا اس کی سواری شوخی کرنے لگی تو وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ شعبہ نے کہا: وہ شخص حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ تھے۔ انہیں دیکھ کر خارجیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ! تو اس بوڑھے کو ایسا ایسا کر دے۔ جب شیخ محترم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ دراصل میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چھ سات یا آٹھ جنگوں میں شرکت کی ہے۔ میں نے لوگوں پر آپ کی طرف سے سہولت اور آسانی کو دیکھا ہے، اس لیے مجھے اپنی سواری کے ہمراہ رہنا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں اسے چھوڑ دوں اور وہ اپنے اصبطل میں چلی جائے، پھر مجھے تکلیف ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ واقعہ 65 ہجری میں پیش آیا جبکہ خوارج نے نافع بن ازرق کی سرکردگی میں اہل بصرہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ دریائے دجیل کے کنارے نماز عصر پڑھ رہے تھے اور دوران نماز میں ان کی سواری بدکی اور قبلے کی جانب چلنے لگی۔ حضرت ابو برزہ بھی اس کے ساتھ ہو لیے۔ آخر کار اسے ساتھ لے کر الٹے پاؤں واپس آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نماز جاری رکھی تھی وگرنہ وہ الٹے پاؤں واپس آنے کا تکلف نہ کرتے۔ اس واقعے سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اس سلسلے میں سختی کرتے اور کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جانور کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اپنی نماز کو قطع نہ کیا جائے۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی کو اپنے مال و اسباب کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز قطع کرنا جائز ہے۔ (فتح الباري:106/3) (2) ابن بطال نے کہا ہے کہ دوران نماز میں اگر کسی کی سواری دوڑ جائے تو وہ نماز توڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے دوران نماز اپنے جانور کی ہلاکت کا خطرہ محسوس کیا یا کسی بچے کو دیکھا کہ وہ کنویں کے کنارے کھڑا ہے اور اس میں گرنے کے قریب ہے یا کسی اندھے کے گڑھے میں گرنے کا اندیشہ محسوس کیا اور وہ مذکورہ امور کی مدافعت پر قادر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز توڑ کر ان کی حفاظت کرے۔ یہ ناممکن ہے کہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ ایسا کریں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی مشاہدہ نہ کیا ہو۔ ابن تین نے کہا ہے کہ اگر کوئی دوران نماز میں گراں قدر چیز کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے نماز توڑنا جائز ہے اور اگر معمولی چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز میں مصروف رہنا بہتر ہے۔ (عمدة القاري:615/5)
ترجمۃ الباب:
حضرت قتادہ نے کہا: اگر کسی کا کپڑا چوری ہو جائے تو اسے چاہئے کہ چور کا پیچھا کرے اور نماز چھوڑ دے
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ارزق بن قیس نے بیان کیا، کہا کہ ہم اہواز میں (جو کئی بستیاں ہیں بصرہ اور ایران کے بیچ میں) خارجیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ایک بار میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابو برزہ صحابی ؓ ) آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اچانک گھوڑا ان سے چھوٹ کر بھاگنے لگا۔ تو وہ بھی اس کا پیچھا کر نے لگے۔ شعبہ نے کہا یہ ابو برزہ اسلمی ؓ تھے۔ یہ دیکھ کر خوارج میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ!اس شیخ کا ناس کر۔ جب وہ شیخ واپس لوٹے تو فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور (تم کیا چیز ہو؟) میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ جہادوں میں شرکت کی ہے اور میں نے آپ ﷺ کی آسانیوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اچھا معلوم ہو اکہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں نہ کہ اس کوچھوڑدوں وہ جہاں چاہے چل دے اور میں تکلیف اٹھاؤں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Azraq bin Qais (RA): We were at Al-Ahwaz fighting the AlHaruriya (tribe). While I was at the bank of a river a man was praying and the reins of his animal were in his hands and the animal was struggling and he was following the animal. (Shu'ba, a sub-narrator, said that man was Abu Barza al-Aslaml). A man from the Khawarij said, "O Allah! Be harsh to this sheik." And when the sheik (Abu Barza) finished his prayer, he said, "I heard your remark. No doubt, I participated with Allah's Apostle (ﷺ) in six or seven or eight holy battles and saw his leniency, and no doubt, I would rather retain my animal than let it return to its stable, as it would cause me much trouble. " ________