باب: اگر چار رکعت نماز میں پہلا قعدہ نہ کرے اور بھولے سے اٹھ کھڑا ہو تو سجدہ سہو کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: What is said regarding the Sahw)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1225.
حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔
تشریح:
(1) ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے دوران نماز میں بھولنے کا بیان ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے سبحان اللہ کہا لیکن آپ اپنی نماز میں جاری رہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1179) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں سجدوں میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1230، و فتح الباري:121/3) اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو میں تکبیر بآواز بلند اور درمیانی فاصلہ ہے، نیز پتہ چلا کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ کریں گے، اگرچہ وہ بھولنے میں امام کے شریک نہ بھی ہوں۔ (فتح الباري:121/3، 122) (2) امام بخاری ؒ کے نزدیک تشہد اول واجب نہیں، چنانچہ انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’تشہد اول غیر واجب ہے۔‘‘ آپ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد اول بھول گئے اور کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نہ بیٹھے۔ اگر واجب ہوتا تو آپ دوبارہ بیٹھ کر اس کی تلافی کرتے۔ آپ نے صرف سجدۂ سہو پر اکتفا کیا۔ بہرحال اس روایت سے سجدۂ سہو کے ایک سبب کا پتہ چلتا ہے کہ نمازی جب اپنی نماز میں کسی کمی کا مرتکب ہو تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو گی، چنانچہ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے۔ اس میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں: ٭ نماز میں کسی قسم کا اضافہ۔ ٭ دوران نماز کسی قسم کی کمی۔ ٭ نماز میں شک و شبہ پڑ جانا۔ مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تشہد چھوڑ دینے کی وجہ سے سجدۂ سہو کیا تھا، گویا نماز میں کمی کر دی تھی۔ ہم مذکورہ رسالے سے دوران نماز میں کمی کی بنا پر سجدۂ سہو کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ اگر نماز میں کوئی رکن رہ جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر تکبیر تحریمہ ہی رہ گئی، خواہ دانستہ یا بھول کر تو سرے سے نماز نہیں ہو گی کیونکہ تکبیر تحریمہ نماز کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رکن دانستہ چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز باطل ہے کیونکہ جان بوجھ کر کسی رکن کو چھوڑ دینا نماز کو خود ہی باطل کر دینا ہے۔ اگر نادانستہ طور پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی رکن کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ٭ اگر نمازی اگلی رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچ چکا ہے اور اسے یاد نہیں آتا تو اس صورت میں پہلی رکعت باطل ہو جائے گی، دوسری رکعت خودبخود اس کے قائم مقام ہو گی، مثلاً: ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا اور اسے دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے یاد آیا کہ میں نے پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ نہیں کیا تھا، چونکہ وہ رکن متروک تک پہنچ چکا ہے اور اس کی پہلی رکعت اس کی ادائیگی کے بغیر پڑھی گئی ہے، لہذا پہلی رکعت باطل ہو گی اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہو گی۔ اس طرح وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ ٭ اگر دوسری رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے یاد آ گیا کہ میری پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو فورا اٹھ کر متروکہ رکن ادا کرے۔ اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے، مثلاً: ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل بیٹھنا بھول گیا اور اسے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا کہ میری پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اور متروکہ سجدہ کرے۔ اس کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرے اور سلام پھیر دے۔ پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ اگر نماز میں رکن کے بجائے کوئی دوسرا واجب رہ گیا ہے تو اگر نمازی نے اس واجب کو دانستہ ترک کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز سرے سے نہیں ہو گی اور اگر بھول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ٭ جہاں وہ واجب ادا ہوتا ہے اس مقام پر فوراً یاد آ گیا تو اسے مکمل کرے، مثلاً: ایک نمازی نے دوسری رکعت کے آخری سجدے سے سر اٹھایا اور وہ اپنی دانست کے مطابق تیسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس نے تشہد نہیں پڑھا، لیکن اٹھنے سے پہلے پہلے یاد آ گیا تو اس صورت میں وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے۔ اس قسم کے سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں۔ ٭ اگر اسے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد یاد آیا، لیکن ابھی تک پوری طرح سیدھا کھڑا نہیں ہو پایا تھا کہ اسے متروکہ واجب یاد آ گیا تو فورا اٹھ کر تشہد پڑھے اور اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے۔ اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور آخر میں دوبارہ سلام پھیرے۔ ٭ اگر اسے دوسرا رکن شروع کرنے کے بعد یاد آیا تو اس صورت میں متروکہ واجب ساقط ہو جائے گا اور وہ اس کے بغیر ہی نماز ادا کرے گا، مثلاً: نمازی تیسری رکعت ادا کرنے کے لیے تشہد پڑھے بغیر پوری طرح سیدھا کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں تشہد ساقط ہو جائے گا۔ نمازی تشہد کے بغیر ہی اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے قبل سجدۂ سہو کر کے آخر میں سلام پھیر دے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) (3) امام بخاری ؒ کی پہلی پیش کردہ حدیث میں نماز کی صراحت نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا تھا، اس لیے دوسری روایت پیش کی جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز ظہر میں سہو کا واقعہ پیش آیا تھا۔ آپ کی یہ بھول بھی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو سہو کے متعدد مسائل ہمیں معلوم نہ ہوتے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1195
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1225
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1225
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1225
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے دوران نماز میں بھولنے کا بیان ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے سبحان اللہ کہا لیکن آپ اپنی نماز میں جاری رہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1179) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں سجدوں میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1230، و فتح الباري:121/3) اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو میں تکبیر بآواز بلند اور درمیانی فاصلہ ہے، نیز پتہ چلا کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ کریں گے، اگرچہ وہ بھولنے میں امام کے شریک نہ بھی ہوں۔ (فتح الباري:121/3، 122) (2) امام بخاری ؒ کے نزدیک تشہد اول واجب نہیں، چنانچہ انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’تشہد اول غیر واجب ہے۔‘‘ آپ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد اول بھول گئے اور کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نہ بیٹھے۔ اگر واجب ہوتا تو آپ دوبارہ بیٹھ کر اس کی تلافی کرتے۔ آپ نے صرف سجدۂ سہو پر اکتفا کیا۔ بہرحال اس روایت سے سجدۂ سہو کے ایک سبب کا پتہ چلتا ہے کہ نمازی جب اپنی نماز میں کسی کمی کا مرتکب ہو تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو گی، چنانچہ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے۔ اس میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں: ٭ نماز میں کسی قسم کا اضافہ۔ ٭ دوران نماز کسی قسم کی کمی۔ ٭ نماز میں شک و شبہ پڑ جانا۔ مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تشہد چھوڑ دینے کی وجہ سے سجدۂ سہو کیا تھا، گویا نماز میں کمی کر دی تھی۔ ہم مذکورہ رسالے سے دوران نماز میں کمی کی بنا پر سجدۂ سہو کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ اگر نماز میں کوئی رکن رہ جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر تکبیر تحریمہ ہی رہ گئی، خواہ دانستہ یا بھول کر تو سرے سے نماز نہیں ہو گی کیونکہ تکبیر تحریمہ نماز کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رکن دانستہ چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز باطل ہے کیونکہ جان بوجھ کر کسی رکن کو چھوڑ دینا نماز کو خود ہی باطل کر دینا ہے۔ اگر نادانستہ طور پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی رکن کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ٭ اگر نمازی اگلی رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچ چکا ہے اور اسے یاد نہیں آتا تو اس صورت میں پہلی رکعت باطل ہو جائے گی، دوسری رکعت خودبخود اس کے قائم مقام ہو گی، مثلاً: ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا اور اسے دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے یاد آیا کہ میں نے پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ نہیں کیا تھا، چونکہ وہ رکن متروک تک پہنچ چکا ہے اور اس کی پہلی رکعت اس کی ادائیگی کے بغیر پڑھی گئی ہے، لہذا پہلی رکعت باطل ہو گی اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہو گی۔ اس طرح وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ ٭ اگر دوسری رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے یاد آ گیا کہ میری پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو فورا اٹھ کر متروکہ رکن ادا کرے۔ اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے، مثلاً: ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل بیٹھنا بھول گیا اور اسے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا کہ میری پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اور متروکہ سجدہ کرے۔ اس کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرے اور سلام پھیر دے۔ پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ اگر نماز میں رکن کے بجائے کوئی دوسرا واجب رہ گیا ہے تو اگر نمازی نے اس واجب کو دانستہ ترک کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز سرے سے نہیں ہو گی اور اگر بھول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ٭ جہاں وہ واجب ادا ہوتا ہے اس مقام پر فوراً یاد آ گیا تو اسے مکمل کرے، مثلاً: ایک نمازی نے دوسری رکعت کے آخری سجدے سے سر اٹھایا اور وہ اپنی دانست کے مطابق تیسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس نے تشہد نہیں پڑھا، لیکن اٹھنے سے پہلے پہلے یاد آ گیا تو اس صورت میں وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے۔ اس قسم کے سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں۔ ٭ اگر اسے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد یاد آیا، لیکن ابھی تک پوری طرح سیدھا کھڑا نہیں ہو پایا تھا کہ اسے متروکہ واجب یاد آ گیا تو فورا اٹھ کر تشہد پڑھے اور اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے۔ اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور آخر میں دوبارہ سلام پھیرے۔ ٭ اگر اسے دوسرا رکن شروع کرنے کے بعد یاد آیا تو اس صورت میں متروکہ واجب ساقط ہو جائے گا اور وہ اس کے بغیر ہی نماز ادا کرے گا، مثلاً: نمازی تیسری رکعت ادا کرنے کے لیے تشہد پڑھے بغیر پوری طرح سیدھا کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں تشہد ساقط ہو جائے گا۔ نمازی تشہد کے بغیر ہی اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے قبل سجدۂ سہو کر کے آخر میں سلام پھیر دے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) (3) امام بخاری ؒ کی پہلی پیش کردہ حدیث میں نماز کی صراحت نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا تھا، اس لیے دوسری روایت پیش کی جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز ظہر میں سہو کا واقعہ پیش آیا تھا۔ آپ کی یہ بھول بھی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو سہو کے متعدد مسائل ہمیں معلوم نہ ہوتے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں یحی بن سعید انصاری نے خبر دی، انہیں عبد الرحمن اعرج نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن بحینہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی دو رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھے بغیر کھڑے ہوگئے اور قعدہ اولیٰ نہیں کیا۔ جب نماز پوری کر چکے تو دو سجدے کئے۔ پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
اس میں ان پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ سہو کے سب سجدے سلام کے بعد ہیں۔ (فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Buhaina : Allah's Apostle (ﷺ) got up after the second Raka of the Zuhr prayer without sitting in between (the second and the third Rakat). When he finished the prayer he performed two prostrations (of Sahu) and then finished the prayer with Tasllm. ________