Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To undo the hair of a (dead) female)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور ابن سیرین نے کہا کہ` میت (عورت) کے سر کے بال کھولنے میں کوئی حرج نہیں۔
1260.
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:عورتوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنائیں، اس طرح کہ انھوں نے بال کھولے، انھیں دھویا، پھر ان کی تین چوٹیاں بنائیں۔
تشریح:
میت عورت کے بال غسل سے پہلے کھولے جا سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ پانی نیچے تک پہنچ جاتا ہے اور بالوں کو صاف کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی مرد نے بال رکھے ہوں تو مرنے کے بعد اسے غسل دیتے وقت اس کے بال بھی کھولے جا سکتے ہیں۔ (فتح الباري:170/3) مختصر طور پر میت کو غسل دیتے وقت مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے: ٭ میت کو پہلے استنجا پھر وضو کرایا جائے۔ اس کے ناک اور منہ کی صفائی روئی وغیرہ سے کی جائے۔ ٭ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ڈالے جائیں، پھر اسے جوش دیا جائے۔ ٭ میت اگر مرد ہے تو کسی دین دار اور امانت دار مرد کا اور اگر عورت ہے تو مذکورہ صفات کی حاملہ کسی خاتون کا بندوبست کیا جائے۔ ٭ کم از کم تین مرتبہ غسل دیا جائے، حسب ضرورت زیادہ مرتبہ بھی دیا جا سکتا ہے، لیکن طاق عدد کا خیال رکھا جائے۔ ٭ آخری مرتبہ پانی بہاتے وقت اس میں کچھ کافور یا کسی بھی خوشبو کو شامل کر لیا جائے۔ ٭ عورت کے بالوں کو کھول کر اچھی طرح دھویا جائے، پھر ان میں کنگھی کی جائے۔ ٭ آخر میں اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنا کر انہیں پیچھے ڈال دیا جائے۔ یہ تمام امور دلائل سے ثابت ہیں۔ علامہ البانی ؒ نے انہیں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (أحکام الجنائز:48)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1228
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1260
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1260
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1260
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
غسل کے وقت میت کے بال کھولے جائیں تاکہ پانی جلد تک پہنچ جائے اور بال بھی اچھی طرح صاف ہو سکیں۔ امام ابن سیرین کے اثر کو سعید بن منصور نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری: 3/170)
´اور ابن سیرین نے کہا کہ` میت (عورت) کے سر کے بال کھولنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:عورتوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنائیں، اس طرح کہ انھوں نے بال کھولے، انھیں دھویا، پھر ان کی تین چوٹیاں بنائیں۔
حدیث حاشیہ:
میت عورت کے بال غسل سے پہلے کھولے جا سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ پانی نیچے تک پہنچ جاتا ہے اور بالوں کو صاف کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی مرد نے بال رکھے ہوں تو مرنے کے بعد اسے غسل دیتے وقت اس کے بال بھی کھولے جا سکتے ہیں۔ (فتح الباري:170/3) مختصر طور پر میت کو غسل دیتے وقت مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے: ٭ میت کو پہلے استنجا پھر وضو کرایا جائے۔ اس کے ناک اور منہ کی صفائی روئی وغیرہ سے کی جائے۔ ٭ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ڈالے جائیں، پھر اسے جوش دیا جائے۔ ٭ میت اگر مرد ہے تو کسی دین دار اور امانت دار مرد کا اور اگر عورت ہے تو مذکورہ صفات کی حاملہ کسی خاتون کا بندوبست کیا جائے۔ ٭ کم از کم تین مرتبہ غسل دیا جائے، حسب ضرورت زیادہ مرتبہ بھی دیا جا سکتا ہے، لیکن طاق عدد کا خیال رکھا جائے۔ ٭ آخری مرتبہ پانی بہاتے وقت اس میں کچھ کافور یا کسی بھی خوشبو کو شامل کر لیا جائے۔ ٭ عورت کے بالوں کو کھول کر اچھی طرح دھویا جائے، پھر ان میں کنگھی کی جائے۔ ٭ آخر میں اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنا کر انہیں پیچھے ڈال دیا جائے۔ یہ تمام امور دلائل سے ثابت ہیں۔ علامہ البانی ؒ نے انہیں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (أحکام الجنائز:48)
ترجمۃ الباب:
امام ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ(خاتون) میت کے بال کھولنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیاانہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیا کہ میں نے حفصہ بنت سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے ہم سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے بال کھولے گئے پھر انہیں دھوکر ان کی تین چوٹیاں کر دی گئیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hafsah (RA) bint Sirin (RA): Um 'Atiyya said that they had entwined the hair of the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) in three braids. They first undid her hair, washed and then entwined it in three braids."