Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Shrouding in two pieces of cloth)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1265.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےمانھوں نےفرمایا:ایک شخص مقام عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سےگرا، جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ نبی کریم ﷺ نےفرمایا:’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کردو کپڑوں میں کفن دو مگر حنوط (ایک خوشبو) نہ لگانا اور نہ اس کا سر ڈھانپنا، کیونکہ یہ قیامت کےدن لبیك کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘
تشریح:
(1) سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے انہی دو کپڑوں میں کفن دیا جائے جن میں اس نے احرام باندھا تھا۔‘‘(سنن النسائی، الجنائز: حدیث: 1905) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کفن کے لیے تین کپڑوں کا ہونا شرط نہیں، البتہ مستحب ضرور ہے، جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ (2) کفن کی تین اقسام ہیں: ٭ کفن ضرورت جو فرض ہے کہ ایک ہی چادر جو تمام جسم کے لیے ساتر ہو۔ ٭ کفن کفایہ: اس کے لیے دو چادریں کافی ہیں۔ ٭ کفن سنت: اس میں تین چادریں ہیں۔ اس بات پر اجماع ہے کہ کم از کم ایک چادر ضرور ہونی چاہیے جس سے میت کو ڈھانپا جا سکے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1233
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1265
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1265
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1265
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےمانھوں نےفرمایا:ایک شخص مقام عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سےگرا، جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ نبی کریم ﷺ نےفرمایا:’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کردو کپڑوں میں کفن دو مگر حنوط (ایک خوشبو) نہ لگانا اور نہ اس کا سر ڈھانپنا، کیونکہ یہ قیامت کےدن لبیك کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے انہی دو کپڑوں میں کفن دیا جائے جن میں اس نے احرام باندھا تھا۔‘‘(سنن النسائی، الجنائز: حدیث: 1905) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کفن کے لیے تین کپڑوں کا ہونا شرط نہیں، البتہ مستحب ضرور ہے، جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ (2) کفن کی تین اقسام ہیں: ٭ کفن ضرورت جو فرض ہے کہ ایک ہی چادر جو تمام جسم کے لیے ساتر ہو۔ ٭ کفن کفایہ: اس کے لیے دو چادریں کافی ہیں۔ ٭ کفن سنت: اس میں تین چادریں ہیں۔ اس بات پر اجماع ہے کہ کم از کم ایک چادر ضرور ہونی چاہیے جس سے میت کو ڈھانپا جا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے حماد نے، ان سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓمانے بیان کیا کہ ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ یا ( وقصته کے بجائے یہ لفظ ) أوقصته کہا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سرچھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیك کہتا ہوا اٹھے گا۔
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ محرم کو دو کپڑوں میں دفنایا جائے۔ کیونکہ وہ حالت احرام میں ہے اور محرم کے لیے احرام کی صرف دو ہی چادریں ہیں، برخلاف ا س کے دیگر مسلمانوں کے لیے مرد کے لیے تین چادریں اور عورت کے لیے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): While a man was riding (his Mount) in 'Arafat, he fell down from it (his Mount) and broke his neck (and died). The Prophet (ﷺ) said, "Wash him with water and Sidr and shroud him in two pieces of cloth, and neither perfume him, nor cover his head, for he will be resurrected on the Day of Resurrection saying, 'Labbaik,' (i.e. like a pilgrim)." ________