باب: نبی کریم ﷺکا سعد بن خولہ ؓ کی وفات پر افسوس کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The sorrow of the Prophet (pbuh) for Sa'ad bin Khaula)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1295.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال جبکہ میں ایک سنگین مرض میں مبتلا تھا، میری عیادت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ میں نے عرض کیا:میری بیماری کی انتہائی شدت کو تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں، میں ایک مالدار آدمی ہوں مگر میری ایک بیٹی کے سوا میرا اور کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی خیرات کرسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ میں نےعرض کیا:کیا اپناآدھا مال؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا:کیاایک تہائی خیرات کردوں؟آپ نے فرمایا:’’ایک تہائی خیرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاناتمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ انھیں فقیر اور تنگ دست چھوڑجاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو کچھ خرچ کروگے اس کا اجر تمھیں ضرور ملے گا حتیٰ کہ جو لقمہ ا پنی بیوی کے منہ میں دو گے اس کا بھی ثواب ملےگا۔‘‘ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! کیا میں بیماری کی وجہ سے اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟آپ نے فرمایا:’’تم ہر گز پیچھے نہ رہو گے، جو نیک اعمال کرو گے ان سے تمہارے درجات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا اور تمہارا مرتبہ ان سے بلند ہوتا رہے گا اور شاید تم بعد تک زندہ رہوگے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو تم سے نفع پہنچے گا اور کچھ لوگوں کو تمہاری وجہ سے نقصان ہوگا۔ اے اللہ! میرے اصحاب (رضوان اللہ عنھم أجمعین) کی ہجرت کو کامل کردے اور انھیں ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، یعنی انہیں مکہ میں موت نہ آئے۔ لیکن بے چارے سعد بن خولہ!‘‘ رسول اللہ ﷺ ان کے لیے اظہار رنج وغم کرتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال کرگئے۔
تشریح:
(1) راوی کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ کے متعلق صرف اظہارِ رنج و غم فرمایا کہ انہیں مکہ ہی میں موت آ گئی۔ اس کے متعلق محدث اسماعیلی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حزن و ملال، مرثیے میں سے نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شاید امام بخاری ؒ کا مقصد مرثیہ مباح کی صورت بتانا ہے، کیونکہ ایسا مرثیہ جس سے غم کے جذبات بھڑکنے کا اندیشہ ہو اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مرثیے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ (مسند أحمد: 356/4 ،383) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مرثیہ خوانی سے منع فرمایا۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 302/3، 392، 394، 395) لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی میت کے متعلق مرثیے کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اس سے مراد اپنی ہمدردی اور شرکتِ غم کا اظہار کرنا ہے۔ (فتح الباري:210/3) بعض شارحین نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے اس واقعے کو فتح مکہ سے متعلق قرار دیا ہے، حالانکہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق مدت تک زندہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایران اور عراق ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ بےشمار لوگ ان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور کئی ایک ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ (2) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میری زندگی ابھی باقی ہے اور اس بیماری میں میرا انتقال نہیں ہو گا، اس لیے انہوں نے سوال کیا کہ آیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا، یعنی آپ تو حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ سے اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ چلے جائیں گے اور میں یہاں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ فکر اس لیے دامن گیر ہوئی کہ صحابہ کرام ؓ ہجرت کے بعد مکہ میں رہ جانے کو اچھا نہیں جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دارہجرت ہی میں موت آئے تو ہجرت کی تکمیل ہو گی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم رہ بھی جاؤ تو کوئی حرج والی بات نہیں، یہاں بھی جو نیک اعمال کرو گے ان کا نفع اور ثواب تمہیں مکہ معظمہ میں بھی ضرور حاصل ہو گا۔‘‘ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرے صحابہ کرام کے لیے ان کی ہجرت کو کامل کر دے اور ان کے قدم کمال سے نقص اور کمی کی طرف نہ لوٹیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے سوال کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اس مرض سے نجات پر مزید زندگی پاؤں گا کہ میں اپنے ساتھیوں سے بعد میں وفات پاؤں۔ اس کے جواب میں آپ کا دوسرا ارشاد ہے کہ تمہاری عمر دراز ہو گی اور تمہاری موت مکہ مکرمہ میں نہیں ہو گی، چنانچہ اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ چالیس سال تک زندہ رہے، عراق و ایران فتح کیا، نیز ان سے مسلمانوں کو بہت نفع پہنچا اور کفارومشرکین پر ان کی وجہ سے بہت تکلیفیں آئیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1260
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1295
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1295
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1295
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
عربی زبان میں رثاء کے معنی کسی میت کے اچھے اوصاف بیان کرنا ہیں، اس سے مرثیہ کا لفظ ماخوذ ہے۔ حدیث کی رو سے ایسا مرثیہ کہنا منع ہے جس سے رنج و غم کے جذبات مزید بھڑکنے کا اندیشہ ہو، البتہ اپنی ہمدردی اور شرکتِ غم کا اظہار کرنا ممنوع نہیں، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں مباح مرثیے کی صورت بیان کی ہے۔ (فتح الباری: 3/210)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال جبکہ میں ایک سنگین مرض میں مبتلا تھا، میری عیادت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ میں نے عرض کیا:میری بیماری کی انتہائی شدت کو تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں، میں ایک مالدار آدمی ہوں مگر میری ایک بیٹی کے سوا میرا اور کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی خیرات کرسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ میں نےعرض کیا:کیا اپناآدھا مال؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا:کیاایک تہائی خیرات کردوں؟آپ نے فرمایا:’’ایک تہائی خیرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاناتمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ انھیں فقیر اور تنگ دست چھوڑجاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو کچھ خرچ کروگے اس کا اجر تمھیں ضرور ملے گا حتیٰ کہ جو لقمہ ا پنی بیوی کے منہ میں دو گے اس کا بھی ثواب ملےگا۔‘‘ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! کیا میں بیماری کی وجہ سے اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟آپ نے فرمایا:’’تم ہر گز پیچھے نہ رہو گے، جو نیک اعمال کرو گے ان سے تمہارے درجات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا اور تمہارا مرتبہ ان سے بلند ہوتا رہے گا اور شاید تم بعد تک زندہ رہوگے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو تم سے نفع پہنچے گا اور کچھ لوگوں کو تمہاری وجہ سے نقصان ہوگا۔ اے اللہ! میرے اصحاب (رضوان اللہ عنھم أجمعین) کی ہجرت کو کامل کردے اور انھیں ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، یعنی انہیں مکہ میں موت نہ آئے۔ لیکن بے چارے سعد بن خولہ!‘‘ رسول اللہ ﷺ ان کے لیے اظہار رنج وغم کرتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال کرگئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) راوی کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ کے متعلق صرف اظہارِ رنج و غم فرمایا کہ انہیں مکہ ہی میں موت آ گئی۔ اس کے متعلق محدث اسماعیلی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حزن و ملال، مرثیے میں سے نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شاید امام بخاری ؒ کا مقصد مرثیہ مباح کی صورت بتانا ہے، کیونکہ ایسا مرثیہ جس سے غم کے جذبات بھڑکنے کا اندیشہ ہو اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مرثیے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ (مسند أحمد: 356/4 ،383) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مرثیہ خوانی سے منع فرمایا۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 302/3، 392، 394، 395) لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی میت کے متعلق مرثیے کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اس سے مراد اپنی ہمدردی اور شرکتِ غم کا اظہار کرنا ہے۔ (فتح الباري:210/3) بعض شارحین نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے اس واقعے کو فتح مکہ سے متعلق قرار دیا ہے، حالانکہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق مدت تک زندہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایران اور عراق ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ بےشمار لوگ ان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور کئی ایک ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ (2) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میری زندگی ابھی باقی ہے اور اس بیماری میں میرا انتقال نہیں ہو گا، اس لیے انہوں نے سوال کیا کہ آیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا، یعنی آپ تو حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ سے اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ چلے جائیں گے اور میں یہاں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ فکر اس لیے دامن گیر ہوئی کہ صحابہ کرام ؓ ہجرت کے بعد مکہ میں رہ جانے کو اچھا نہیں جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دارہجرت ہی میں موت آئے تو ہجرت کی تکمیل ہو گی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم رہ بھی جاؤ تو کوئی حرج والی بات نہیں، یہاں بھی جو نیک اعمال کرو گے ان کا نفع اور ثواب تمہیں مکہ معظمہ میں بھی ضرور حاصل ہو گا۔‘‘ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرے صحابہ کرام کے لیے ان کی ہجرت کو کامل کر دے اور ان کے قدم کمال سے نقص اور کمی کی طرف نہ لوٹیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے سوال کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اس مرض سے نجات پر مزید زندگی پاؤں گا کہ میں اپنے ساتھیوں سے بعد میں وفات پاؤں۔ اس کے جواب میں آپ کا دوسرا ارشاد ہے کہ تمہاری عمر دراز ہو گی اور تمہاری موت مکہ مکرمہ میں نہیں ہو گی، چنانچہ اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ چالیس سال تک زندہ رہے، عراق و ایران فتح کیا، نیز ان سے مسلمانوں کو بہت نفع پہنچا اور کفارومشرکین پر ان کی وجہ سے بہت تکلیفیں آئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی۔ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور انہیں ان کے والد سعد بن ابی وقاص ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ حجتہ الوداع کے سال ( 10ھ میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہاکہ میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے، میرے پاس مال واسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی کردو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر ( حجتہ الوداع کرکے ) مکہ سے جارہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہوگے اور بہت سے لوگوں کو ( مسلمانوں کو ) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو ( کفار و مرتدین کو ) نقصان۔ ( پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی ) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فر اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا، اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاء شہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی ؒ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے، لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباء ہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔ سعد بن خولہ ؓ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص ؓ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی سعد بن خولہ ؓ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ (تفہیم البخاری) ترجمہ باب رثاء سے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے، خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے مرثیوں سے منع فرمایا۔ سعد ؓ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ ﷺ نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد ؓ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ ﷺ کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد ؓ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضي اللہ عنه۔(وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amir bin Sad bin Abi Waqqas (RA): That his father said, "In the year of the last Hajj of the Prophet (ﷺ) I became seriously ill and the Prophet (ﷺ) used to visit me inquiring about my health. I told him, 'I am reduced to this state because of illness and I am wealthy and have no inheritors except a daughter, (In this narration the name of 'Amir bin Sad is mentioned and in fact it is a mistake; the narrator is 'Aisha (RA) bint Sad bin Abi Waqqas). Should I give two-thirds of my property in charity?' He said, 'No.' I asked, 'Half?' He said, 'No.' then he added, 'One-third, and even one-third is much. You'd better leave your inheritors wealthy rather than leaving them poor, begging others. You will get a reward for whatever you spend for Allah's sake, even for what you put in your wife's mouth.' I said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Will I be left alone after my companions have gone?' He said, 'If you are left behind, whatever good deeds you will do will up-grade you and raise you high. And perhaps you will have a long life so that some people will be benefited by you while others will be harmed by you. O Allah! Complete the emigration of my companions and do not turn them renegades.' But Allah's Apostle (ﷺ) felt sorry for poor Sad bin Khaula as he died in Makkah." (but Sad bin Abi Waqqas lived long after the Prophet (ﷺ) .) ________