باب: اس شخص کے بارے میں جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Standing for the funeral procession of a jew)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1313.
حضرت ابن ابی لیلیٰ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا:میں حضرت قیس اور حضرت سہل ؓ کے ساتھ تھا ان دونوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ تھےابن ابی لیلیٰ سے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو مسعود ؓ اور حضرت قیس ؓ دونوں جنازے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔
تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں محض انسانیت کے ناتے لوگوں سے کس قدر محبت تھی قطع نظر اس سے کہ وہ مسلمان ہے یا یہودی، جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کے متعلق کئی ایک وجوہ بیان کی گئی ہیں: انہی احادیث میں ہے کہ جان کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں۔ زندگی اور موت سے ہر ایک نے دوچار ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ احترام انسانیت کے پیش نظر کھڑے ہوتے تھے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جنازے کے لیے کھڑا ہونا اللہ تعالیٰ کے اجلالِ حکم اور موت کی عظمت کے پیش نظر تھا اور قیام سے اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ موت گھبراہٹ ڈالنے والی ہے، خواہ کسی کی بھی ہو۔ اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے اور اس سے مرعوب ہو کر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ (2) سنن نسائی وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1931) اور دوسروں کو بھی کھڑے ہونے کا حکم دیتے۔ بہرحال یہ قیام پہلے تھا بعد میں اسے ترک کر دیا گیا تھا، جیسا کہ ہم اس کی تفصیل پہلے بیان کر آئے ہیں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1277.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1313
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1313
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1313
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن ابی لیلیٰ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا:میں حضرت قیس اور حضرت سہل ؓ کے ساتھ تھا ان دونوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ تھےابن ابی لیلیٰ سے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو مسعود ؓ اور حضرت قیس ؓ دونوں جنازے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں محض انسانیت کے ناتے لوگوں سے کس قدر محبت تھی قطع نظر اس سے کہ وہ مسلمان ہے یا یہودی، جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کے متعلق کئی ایک وجوہ بیان کی گئی ہیں: انہی احادیث میں ہے کہ جان کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں۔ زندگی اور موت سے ہر ایک نے دوچار ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ احترام انسانیت کے پیش نظر کھڑے ہوتے تھے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جنازے کے لیے کھڑا ہونا اللہ تعالیٰ کے اجلالِ حکم اور موت کی عظمت کے پیش نظر تھا اور قیام سے اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ موت گھبراہٹ ڈالنے والی ہے، خواہ کسی کی بھی ہو۔ اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے اور اس سے مرعوب ہو کر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ (2) سنن نسائی وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1931) اور دوسروں کو بھی کھڑے ہونے کا حکم دیتے۔ بہرحال یہ قیام پہلے تھا بعد میں اسے ترک کر دیا گیا تھا، جیسا کہ ہم اس کی تفصیل پہلے بیان کر آئے ہیں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابو حمزہ نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے عمرو نے‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ میں قیس اور سہل ؓ کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ اور زکریا نے کہا ان سے شعبی نے اور ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ابو مسعود اور قیس ؓ جنازہ کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔