باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: "Protect yourself from Hell-fire even with half a date")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور (قرآن مجید میں ہے) «ومثل الذين ينفقون أموالهم» ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں، (سے) فرمان باری «من كل الثمرات» تک۔یہ آیت سورۃ بقرہ کے رکوع 35 میں ہے اس آیت اور حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا ہے کہ صدقہ تھوڑا ہو یا بہت ہر طرح اس پر ثواب ملے گا کیونکہ اس آیت میں مطلق اموالہم کا ذکر ہے جو قلیل اور کثیر سب کو شامل ہے۔
1417.
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ تمھیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔‘‘
تشریح:
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے کہ انسان کو آگ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، چاہے معمولی صدقہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر خیرات کے لیے کچھ نہ ملے تو نرمی سے جواب دیا جائے کہ اس وقت میں مجبور ہوں، معاف کر دیں۔ سائل کو جھڑکنا نہیں چاہیے، کیونکہ قرآن کریم میں اس کی ممانعت ہے بلکہ فقراء و سائلین کو نرمی سے جواب دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ (بني إسرائیل28:17)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1380
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1417
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1417
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1417
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے: "ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی رضا جوی اور پوری دلجمعی سے اپنے مال خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی سطح پر ہو، اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دوگنا پھل دیتا ہے، پھر اس پر زور کی بارش نہ بھی ہو تو پھوار ہی (کافی ہے)۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اس باغ میں اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں ۔۔" اس آیت کی عنوان سے بایں طور مناسبت ہے کہ صدقہ تھوڑا یا زیادہ ہر طرح سے صدقہ دینے والے کو ثواب ملے گا بشرطیکہ اخلاص اور دل جمعی سے اللہ کی راہ میں دیا جائے کیونکہ موسلا دھار بارش سے مراد زیادہ صدقہ اور معمولی پھوار سے مراد کم مقدار میں صدقہ کرنا ہے۔ (فتح الباری:3/357)
اور (قرآن مجید میں ہے) «ومثل الذين ينفقون أموالهم» ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں، (سے) فرمان باری «من كل الثمرات» تک۔یہ آیت سورۃ بقرہ کے رکوع 35 میں ہے اس آیت اور حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا ہے کہ صدقہ تھوڑا ہو یا بہت ہر طرح اس پر ثواب ملے گا کیونکہ اس آیت میں مطلق اموالہم کا ذکر ہے جو قلیل اور کثیر سب کو شامل ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ تمھیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے کہ انسان کو آگ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، چاہے معمولی صدقہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر خیرات کے لیے کچھ نہ ملے تو نرمی سے جواب دیا جائے کہ اس وقت میں مجبور ہوں، معاف کر دیں۔ سائل کو جھڑکنا نہیں چاہیے، کیونکہ قرآن کریم میں اس کی ممانعت ہے بلکہ فقراء و سائلین کو نرمی سے جواب دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ (بني إسرائیل28:17)
ترجمۃ الباب:
(ارشاد باری تعالیٰ ہے: )"ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔۔۔ اس میں ہر طرح کے پھل ہوں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابواسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم ؓ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی ( مگر ضرور صدقہ کرکے دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو )
حدیث حاشیہ:
ان ہر دو احادیث سے صدقہ کی فضیلت ظاہر ہے اور یہ بھی کہ دور اول میں صحابہ کرام جب کہ وہ خود نہایت تنگی کی حالت میں تھے، اس پر بھی ان کو صدقہ خیرات کا کس درجہ شوق تھا کہ خود مزدوری کرتے‘ بازار میں قلی بنتے‘ کھیت مزدوروں میں کام کرتے‘ پھر جو حاصل ہوتا اس میں غرباء ومساکین مسلمانوں کی امداد کرتے۔ اہل اسلام میں یہ جذبہ اس چیز کا بین ثبوت ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں میں بنی نوع انسان کے لیے ہمدردی وسلوک کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیا ہے۔ قرآن مجید کی آیت ﴿لَن تَنَالُو البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾(آل عمران: 92) میں اللہ پاک نے رغبت دلائی کہ صدقہ وخیرات میں گھٹیا چیز نہ دو بلکہ پیاری سے پیاری چیزوں کا صدقہ کرو۔ برخلاف اس کے بخیل کی حد درجہ مذمت کی گئی اور بتلایا کہ بخیل جنت کی بو بھی نہ پائے گا۔ یہی صحابہ کرام تھے جن کا حال آپ نے سنا پھر اللہ نے اسلام کی برکت سے ان کو اس قدر بڑھایا کہ لاکھوں کے مالک بن گئے۔ حدیث ولوبشق تمرة مختلف لفظوں میں مختلف طرق سے وارد ہوئی ہے۔ طبرانی میں ہے اجعلُوا بَینکُم وبینَ النارِ حِجَابا ولوبشقِ تمرة۔اور دوزخ کے درمیان صدقہ کرکے حجاب پیدا کرو اگرچہ وہ صدقہ ایک کھجور کی پھانک ہی سے ہو۔ نیز مسند احمد میں یوں ہے لیتق أحدکم وجهه بالنار ولوبشق تمرة۔یعنی تم کو اپنا چہرہ آگے سے بچانا چاہئے جس کا واحد ذریعہ صدقہ ہے اگرچہ وہ آدھی کھجور ہی سے کیوں نہ ہو۔ اور مسند احمدی ہی میں حدیث عائشہ ؓ سے یوں ہے کہ آپ ﷺ نے خود حضرت عائشہ ؓ کو خطاب فرمایا: یاعائشةُ استترِي منَ النارِ ولوبشقِ تمرة۔ الحدیث یعنی اے عائشہ! دوزخ سے پردہ کرو چاہے وہ کھجور کی ایک پھانک ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ آخر میں علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفي الحدیث الحث علی الصدقة بماقل وماجل وأن لا یحتقر ما یتصدق به وأن الیسیر من الصدقة یستر المتصدق من النار۔(فتح الباري)یعنی حدیث میں ترغیب ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ صدقہ بہر حال کرنا چاہیے اور تھوڑے صدقہ کو حقیر نہ جاننا چاہیے کہ تھوڑے سے تھوڑا صدقہ متصدق کے لیے دوزخ سے حجاب بن سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim heard the Prophet (ﷺ) saying: "Save yourself from Hell-fire even by giving half a date-fruit in charity."