مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1420.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کچھ بیویوں نے آپ سے عرض کیا:وفات کے بعد ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ کو ملے گی؟آپ نےفرمایا:’’جس کا ہاتھ تم سب میں لمبا ہے۔‘‘ چنانچہ انھوں نے چھڑی لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کردیے توحضرت سودہ ؓ کا ہاتھ سب سے بڑا نکلا (مگر سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش ؓ کی وفات ہوئی۔) تب ہم لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد خیرات کرنا تھا، چنانچہ وہ (حضرت زینب ؓ ) ہم سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے جاملیں۔ انھیں صدقہ دینے کا بہت شوق تھا۔
تشریح:
(1) امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے۔ امام بخاری ؒ نے شہرت کی وجہ سے مذکورہ حدیث میں اس کے نام کے متعلق وضاحت نہیں کی، چنانچہ علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے یہ واقعہ انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے اور اس میں تمام ضمائر حضرت زینب بنت حجش ؓ کی طرف راجح ہیں۔ (فتح الباري:363/3) اس کی تائید حضرت عمرہ کی روایت سے ہوتی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے فرمایا: ’’تم میں سے لمبے ہاتھ والی مجھے سب سے پہلے ملے گی۔‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ ٍؓ نے کہا کہ ہم آپ کے بعد آپ کی ایک بیوی کے گھر میں اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں حتی کہ حضرت زینب بن حجش ؓ کا انتقال ہو گیا، حالانکہ وہ ہم سے لمبے ہاتھوں والی نہیں تھیں۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جو صدقہ زیادہ کرتی ہے وہ سب سے پہلے مجھے ملے گی۔ محترمہ اپنے ہاتھ سے مزدوری کرتیں، وہ چمڑوں کو رنگ دیتی اور انہیں سیاہ کرتی تھیں، پھر اس کی کمائی سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:25/4) (2) اس حدیث کا ماقبل سے یہ تعلق ہے کہ صدقات کی کثرت اور ایثار اسی صورت میں ممکن ہے کہ صحت و سلامتی کے وقت اخلاص کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1383
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1420
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1420
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1420
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کچھ بیویوں نے آپ سے عرض کیا:وفات کے بعد ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ کو ملے گی؟آپ نےفرمایا:’’جس کا ہاتھ تم سب میں لمبا ہے۔‘‘ چنانچہ انھوں نے چھڑی لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کردیے توحضرت سودہ ؓ کا ہاتھ سب سے بڑا نکلا (مگر سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش ؓ کی وفات ہوئی۔) تب ہم لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد خیرات کرنا تھا، چنانچہ وہ (حضرت زینب ؓ ) ہم سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے جاملیں۔ انھیں صدقہ دینے کا بہت شوق تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے۔ امام بخاری ؒ نے شہرت کی وجہ سے مذکورہ حدیث میں اس کے نام کے متعلق وضاحت نہیں کی، چنانچہ علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے یہ واقعہ انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے اور اس میں تمام ضمائر حضرت زینب بنت حجش ؓ کی طرف راجح ہیں۔ (فتح الباري:363/3) اس کی تائید حضرت عمرہ کی روایت سے ہوتی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے فرمایا: ’’تم میں سے لمبے ہاتھ والی مجھے سب سے پہلے ملے گی۔‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ ٍؓ نے کہا کہ ہم آپ کے بعد آپ کی ایک بیوی کے گھر میں اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں حتی کہ حضرت زینب بن حجش ؓ کا انتقال ہو گیا، حالانکہ وہ ہم سے لمبے ہاتھوں والی نہیں تھیں۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جو صدقہ زیادہ کرتی ہے وہ سب سے پہلے مجھے ملے گی۔ محترمہ اپنے ہاتھ سے مزدوری کرتیں، وہ چمڑوں کو رنگ دیتی اور انہیں سیاہ کرتی تھیں، پھر اس کی کمائی سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:25/4) (2) اس حدیث کا ماقبل سے یہ تعلق ہے کہ صدقات کی کثرت اور ایثار اسی صورت میں ممکن ہے کہ صحت و سلامتی کے وقت اخلاص کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا ان سے فراس بن یحیٰی ٰ نے‘ ان سے شعبی نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی بعض بیویوں نے آپ سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ سے کون جاکر ملے گی تو آپ نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہوگا۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کردیا تو سودہ ؓ سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی۔ اور سودہ ؓ ہم سب سے پہلے نبی کریم ﷺ سے جاکر ملیں‘ صدقہ کرنا آپ کو بہت محبوب تھا۔
حدیث حاشیہ:
اکثر علماء نے کہا کے طول یدها اور کانت کی ضمیروں میں سے حضرت زینب مراد ہیں مگر ان کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔ کیونکہ اس امر سے اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بیویوں میں سے سب سے پہلے حضرت زینب کا ہی انتقال ہوا تھا۔ لیکن امام بخاری نے تاریخ میں جو روایت کی ہے اس میں ام المؤمنین حضرت سودہ ؓ کی صراحت ہے اور یہاں بھی اس روایت میں حضرت سودہ کا نام آیا ہے اور یہ مشکل ہے اور ممکن ہے یوں جواب دینا کہ جس جلسہ میں یہ سوال آنحضرت ﷺ سے ہوا تھا وہاں حضرت زینب موجود نہ ہوں اور جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں‘ ان سب سے پہلے حضرت سودہ ؓ کا انتقال ہوا۔ مگر ابن حبان کی روایت میں یوں ہے کہ اس وقت آپ کی سب بیویاں موجود تھیں‘ کوئی باقی نہ رہی تھی‘ اس حالت میں یہ احتمال بھی نہیں چل سکتا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ قَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ يَعْنِي الْوَاقِدِيَّ هَذَا الْحَدِيثُ وُهِلَ فِي سَوْدَةَ وَإِنَّمَا هُوَ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَهِيَ أَوَّلُ نِسَائِهِ بِهِ لُحُوقًا وَتُوُفِّيَتْ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ وَبَقِيَتْ سَوْدَةُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَتْ فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِينَ قَالَ بن بَطَّالٍ هَذَا الْحَدِيثُ سَقَطَ مِنْهُ ذِكْرُ زَيْنَبَ لِاتِّفَاقِ أَهْلِ السِّيَرِ عَلَى أَنَّ زَيْنَبَ أَوَّلُ مَنْ مَاتَ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي أَنَّ الصَّوَابَ وَكَانَتْ زَيْنَبُ أَسْرَعَنَا إِلَخْ وَلَكِنْ يُعَكِّرُ عَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ تِلْكَ الرِّوَايَاتُ الْمُتَقَدِّمَةُ الْمُصَرَّحُ فِيهَا بِأَنَّ الضَّمِيرَ لِسَوْدَةَ وَقَرَأْتُ بِخَطِّ الْحَافِظِ أَبِي عَلِيٍّ الصَّدَفِيِّ ظَاهِرُ هَذَا اللَّفْظِ أَنَّ سَوْدَةَ كَانْتَ أَسْرَعَ وَهُوَ خِلَافُ الْمَعْرُوفِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ زَيْنَبَ أَوَّلُ مَنْ مَاتَ مِنَ الْأَزْوَاجِ ثُمَّ نَقَلَهُ عَنْ مَالِكٍ مِنْ رِوَايَتِهِ عَنِ الْوَاقِدِيِّ قَالَ وَيُقَوِّيهِ رِوَايَةُ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ وَقَالَ بن الْجَوْزِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ غَلَطٌ مِنْ بَعْضِ الرُّوَاةِ وَالْعَجَبُ مِنَ الْبُخَارِيِّ كَيْفَ لَمْ يُنَبِّهْ عَلَيْهِ وَلَا أَصْحَابُ التَّعَالِيقِ وَلَا عَلِمَ بِفَسَادِ ذَلِكَ الْخَطَّابِيُّ فَإِنَّهُ فَسَّرَهُ وَقَالَ لُحُوقُ سَوْدَةَ بِهِ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَكُلُّ ذَلِكَ وَهَمٌ وَإِنَّمَا هِيَ زَيْنَبُ فَإِنَّهَا كَانَتْ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا بِالْعَطَاءِ كَمَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ طَرِيقِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ بِلَفْظِ فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يدا زَيْنَبُ لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ وَتَتَصَدَّقُ وفي روایة وَكَانَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةَ صِنَاعَةٍ بِالْيَدِ وَكَانَتْ تَدْبُغُ وَتَخْرُزُ وَتَصَدَّقُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔یعنی ہم سے واقدی نے کہا کہ اس حدیث میں راوی سے بھول ہوگئی ہے۔ درحقیقت سب سے پہلے انتقال کرنے والی زینب ہی ہیں جن کا انتقال حضرت عمر ؓ کی خلافت میں ہوا اور حضرت سودہ ؓ کا انتقال خلافت معاویہ ؓ 54 میں ہوا ہے۔ ابن بطال نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت زینب کا ذکر ساقط ہوگیا ہے کیونکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ امہات المؤمنین میں سب سے پہلے انتقال کرنے والی خاتون حضرت زینب بنت حجش ہی ہیں اور جن روایتوں میں حضرت سودہ ؓ کا نام آیا ہے ان میں راوی سے بھول ہوگئی۔ ابن جوزی نے کہا کہ اس میں بعض راویوں نے غلطی سے حضرت سودہ کا نام لے دیا ہے اور تعجب ہے کہ حضرت امام بخاری کو اس پر اطلاع نہ ہوسکی اور نہ ان اصحاب تعالیق کو جنہوں نے یہاں حضرت سودہ ؓ کا نام لیا ہے اور وہ حضرت زینب ؓ ہی ہیں جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ والی ( یعنی صدقہ خیرات کرنے والی ) حضرت زینب تھیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور دیگر محنت مشقت دباغت وغیرہ کرکے پیسہ حاصل کرتیں اور فی سبیل اللہ صدقہ خیرات کیا کرتی تھیں۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ناپ کے لحاظ سے حضرت سودہ کے ہاتھ دراز تھے‘ ازواج النبی ﷺ نے شروع میں یہی سمجھا کہ دراز ہاتھ والی بیوی کا انتقال پہلے ہونا چاہیے۔ مگر جب حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ کی مراد ہاتھوں کا دراز ہونا نہ تھی بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے ہاتھ مراد تھے اور یہ سبقت حضرت زینب کو حاصل تھی‘ پہلے انہی کا انتقال ہوا‘ مگر بعض راویوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے یہاں حضرت سودہ کا نام لے دیا۔ بعض علما نے یہ تطبیق بھی دی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس وقت یہ ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں حضرت زینب ؓ نہ تھیں‘ آپ نے اس وقت کی حاضر ہونے والی بیویوں کے بارے میں فرمایا اور ان میں سے پہلے حضرت سودہ ؓ کا انتقال ہوا مگر اس تطبیق پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: والحدیث یوهم ظاهرہ أن أول من ماتت من أمهات المؤمنین بعد وفاته صلی اللہ علیه وسلم سودۃة ولیس کذالك فتأمل ولا تعجل في هذا المقام فإنه من مزالق الأقدام۔(شرح تراجم أبواب بخاري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Some of the wives of the Prophet (ﷺ) asked him, "Who amongst us will be the first to follow you (i.e. die after you)?" He said, "Whoever has the longest hand." So they started measuring their hands with a stick and Sauda's hand turned out to be the longest. (When Zainab bint Jahsh died first of all in the caliphate of 'Umar), we came to know that the long hand was a symbol of practicing charity, so she was the first to follow the Prophet (ﷺ) and she used to love to practice charity. (Sauda died later in the caliphate of Muawiyah). ________