باب: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے اگر (کوئی چیز دینے کے لیے) نہ ہو تو اس کے لیے اچھی بات پر عمل کرنا یا اچھی بات دوسرے کو بتلا دینا بھی خیرات ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Every Muslim has to give in charity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1445.
حضرت ابو موسیٰ ؑ سے روایت ہے ،وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ہرمسلمان کے لیے خیرات کرناضروری ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے نبی کریم ﷺ ! اگر کسی کو میسر نہ ہو(تو کیاکرے؟)آپ نے فرمایا:’’وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔‘‘ لوگوں نے پھرعرض کیا:اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو(توکیاکرے؟)آپ نے فرمایا:’’وہ کسی ضرورت مند اور ستم زدہ کی فریاد رسی کرے۔‘‘ لوگوں نے پھر عرض کیا:اگراس کی بھی طاقت نہ ہو(تو کیاکرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:’’اچھی بات پر عمل کرے اور بُری بات سے باز رہے تو اس کے لیے یہی صدقہ ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی بات پر عمل کرنا اور بری بات سے باز رہنا ایک ہی درجہ ہے، لیکن ایک دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بری بات یا برے کام سے رک جانا آخری درجہ ہے، کیونکہ اس روایت میں ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی اچھی بات پر عمل نہ کر سکے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ بری بات یا برے کام سے باز رہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6022) مقصد یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنی چاہیے، خواہ وہ مال خرچ کرنے سے ہو یا غیر مال سے ہو۔ وہ کسی کام کے کرنے سے ہو گی جیسا کہ ضرورت مند کی اعانت کرنا ہے یا ترک فعل سے ہو گی جیسا کہ کسی کو تکلیف دینے سے باز رہنا ہے۔ یہ آخری درجہ بھی اللہ کی مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنے کی ایک قسم ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے ذریعے سے درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کے متعلق ترغیب دلائی ہے۔ پہلے یہ کہ مالی تعاون کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اگر اس کی بھی توفیق نہ ہو تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا جائے۔ آخری درجہ یہ ہے کہ برائی کو ترک کر دیا جائے۔ الغرض انسان جو بھی اچھا کام کرے گا وہ ضائع نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ﴾(آل عمران115:3)’’لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔‘‘ (3) ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور ہر صبح ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے آخر میں فرمایا کہ اگر کوئی انسان ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ و خیرات نہیں کر سکتا تو چاشت کی دو رکعت پڑھ لینا ہی اس کے لیے کافی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1671(720)، و سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5242، و فتح الباري:389/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1408
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1445
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1445
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1445
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے صرف آیت پیش کرنے پر اکتفا کیا ہے کوئی حدیث ذکر نہیں کی، شاید انہیں اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہیں مل سکی۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ حلال کمائی اور پاکیزہ تجارت سے کیا ہوا صدقہ ہی قیامت کے دن باعث نجات اور دنیا میں خیروبرکت کا ذریعہ ہو سکتا ہے جیسا کہ امام مجاہد رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد حلال تجارت ہے۔ مسلمان کی کمائی خبیث نہیں ہوتی اور نہ اس کی تجارت ہی دھوکے اور فریب پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے وہ کسی صورت میں حرام کمائی نہیں کرتا اور نہ اس سے حرام کمائی ہی میں سے خرچ کرنے کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔ (فتح الباری:3/388)
حضرت ابو موسیٰ ؑ سے روایت ہے ،وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ہرمسلمان کے لیے خیرات کرناضروری ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے نبی کریم ﷺ ! اگر کسی کو میسر نہ ہو(تو کیاکرے؟)آپ نے فرمایا:’’وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔‘‘ لوگوں نے پھرعرض کیا:اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو(توکیاکرے؟)آپ نے فرمایا:’’وہ کسی ضرورت مند اور ستم زدہ کی فریاد رسی کرے۔‘‘ لوگوں نے پھر عرض کیا:اگراس کی بھی طاقت نہ ہو(تو کیاکرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:’’اچھی بات پر عمل کرے اور بُری بات سے باز رہے تو اس کے لیے یہی صدقہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی بات پر عمل کرنا اور بری بات سے باز رہنا ایک ہی درجہ ہے، لیکن ایک دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بری بات یا برے کام سے رک جانا آخری درجہ ہے، کیونکہ اس روایت میں ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی اچھی بات پر عمل نہ کر سکے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ بری بات یا برے کام سے باز رہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6022) مقصد یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنی چاہیے، خواہ وہ مال خرچ کرنے سے ہو یا غیر مال سے ہو۔ وہ کسی کام کے کرنے سے ہو گی جیسا کہ ضرورت مند کی اعانت کرنا ہے یا ترک فعل سے ہو گی جیسا کہ کسی کو تکلیف دینے سے باز رہنا ہے۔ یہ آخری درجہ بھی اللہ کی مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنے کی ایک قسم ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے ذریعے سے درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کے متعلق ترغیب دلائی ہے۔ پہلے یہ کہ مالی تعاون کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اگر اس کی بھی توفیق نہ ہو تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا جائے۔ آخری درجہ یہ ہے کہ برائی کو ترک کر دیا جائے۔ الغرض انسان جو بھی اچھا کام کرے گا وہ ضائع نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ﴾(آل عمران115:3)’’لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔‘‘ (3) ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور ہر صبح ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے آخر میں فرمایا کہ اگر کوئی انسان ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ و خیرات نہیں کر سکتا تو چاشت کی دو رکعت پڑھ لینا ہی اس کے لیے کافی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1671(720)، و سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5242، و فتح الباري:389/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ابوبردہ نے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ کماکر خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی طاقت نہ ہو؟ فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو۔ فرمایا پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے باز رہے۔ اس کا یہی صدقہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی ہے اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔ ابوداؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے۔ معلوم ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي جَمْرَةَ نَفَعَ اللَّهُ بِهِ تَرْتِيبُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ نَدَبَ إِلَى الصَّدَقَةِ وَعِنْدَ الْعَجْزِ عَنْهَا نَدَبَ إِلَى مَا يَقْرُبُ مِنْهَا أَوْ يَقُومُ مَقَامَهَا وَهُوَ الْعَمَلُ وَالِانْتِفَاعُ وَعِنْدَ الْعَجْزِ عَنْ ذَلِكَ نَدَبَ إِلَى مَا يَقُومُ مَقَامَهُ وَهُوَ الْإِغَاثَةُ وَعِنْدَ عدم ذَلِك نَدَبَ إِلَى فِعْلِ الْمَعْرُوفِ أَيْ مِنْ سِوَى مَا تَقَدَّمَ كَإِمَاطَةِ الْأَذَى وَعِنْدَ عَدَمِ ذَلِكَ نَدَبَ إِلَى الصَّلَاةِ فَإِنْ لَمْ يُطِقْ فَتَرْكُ الشَّرِّ وَذَلِكَ آخِرُ الْمَرَاتِبِ قَالَ وَمَعْنَى الشَّرِّ هُنَا مَا مَنَعَهُ الشَّرْعُ فَفِيهِ تَسْلِيَةٌ لِلْعَاجِزِ عَنْ فِعْلِ الْمَنْدُوبَاتِ إِذَا كَانَ عَجْزُهُ عَنْ ذَلِك عَن غَيْرِ اخْتِيَارٍ(فتح الباري) مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لاکر یہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہوتو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہوسکے وہی صدقہ ہے۔ مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا‘ جب اس کی بھی توفیق نہ ہوتو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کردینا اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کوئی اور نیک کام کردینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کردیا جائے۔ پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے۔ آخری مرتبہ یہ کہ برائی کو ترک کردینا جسے شریعت نے منع کیا ہے۔ یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا یَفعَلُوا مِن خَیرٍ فَلَن یُّکفُرُوہُ﴾ (آل عمران: 115) لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔ بلکہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ضرور ملتا ہے۔ قدرت کا یہی قانون ہے۔ ﴿فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَّرَہ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہ﴾(الزلزال: 8,7)جو ایک ذرہ برابر خیر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر شرکرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
از مکافات غافل مشو گندم از گندم بروید جو زجو
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Burda (RA): from his father from his grandfather that the Prophet (ﷺ) said, "Every Muslim has to give in charity." The people asked, "O Allah's Prophet! If someone has nothing to give, what will he do?" He said, "He should work with his hands and benefit himself and also give in charity (from what he earns)." The people further asked, "If he cannot find even that?" He replied, "He should help the needy who appeal for help." Then the people asked, "If he cannot do that?" He replied, "Then he should perform good deeds and keep away from evil deeds and this will be regarded as charitable deeds." ________