Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Sadaqat-ul-Fitr is obligatory on the young and the old)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوعمرو نے بیان کیا کہ عمر ‘ علی ‘ ابن عمر ‘ جابر ‘ عائشہ ‘ طاؤس ‘ عطاء اور ابن سیرین ؓ کا خیال یہ تھا کہ یتیم کے مال سے بھی زکوٰۃ دی جائے گی۔ اور زہری دیوانے کے مال سے زکوٰۃ نکالنے کے قائل تھے۔
1512.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر صدقہ فطرایک صاع جوَیا ایک صاع کھجور فرض کیا ہے۔
تشریح:
(1) صدقہ فطر ادا کرنے میں صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے جس کے پاس عید کے دن اپنے اہل و عیال کی خوراک سے اتنا غلہ زائد موجود ہو کہ وہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ادا کر سکے۔ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ زکاۃ میں نصاب کی ملکیت کا اعتبار نہیں بلکہ ہر اس انسان پر واجب ہے جو عید کی رات اور دن اپنی خوراک سے ایک صاع زائد غلہ رکھتا ہو، یہی جمہور کا قول ہے۔ (الجامع للاختیارات الفقیھیة :408/1۔412) اس حدیث میں ایک صاع بطور فطرانہ ادا کرنے کا ذکر ہے لیکن حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں گندم سے دو مد، یعنی نصف صاع بطور فطرانہ ادا کرتے تھے۔ (مسندأحمد:350/6) علامہ ابن قیم ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور چند احادیث کے حوالے سے اسے مضبوط بھی کہا ہے۔ خوف طوالت کے پیش نظر ہم صرف زاد المعاد کے حوالے پر اکتفا کرتے ہیں۔ (زادالمعادلابن القیم، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في زکاةالفطر:19/2 ،20) علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: گندم سے نصف صاع فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ شیخ الاسلام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ (تمام المنة :387) علامہ ابن حزم نے متعدد احادیث و آثار ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گندم سے نصف صاع بھی دیا جا سکتا ہے۔ (محلیٰ ابن حزم:129/6) عرب میں دوسری اشیائے خوردنی کے مقابلے میں گندم قیمتی ہوتی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبار کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عام دستیاب ہے، اس لیے ہمیں گندم سے ایک صاع ہی ادا کرنا چاہیے، البتہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے نصف صاع ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: دوران رمضان روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے ہی پر پابندی نہیں ہوتی بلکہ ہر عضو بالخصوص زبان پر کنٹرول بھی ضروری ہوتا ہے، تاہم احتیاط کے باوجود روزے دار سے کوتاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کی تلافی کے لیے صدقہ فطر کو کفارہ کی حیثیت دی گئی ہے۔ مسلم معاشرے میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے، کچھ لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں جبکہ بعض مفلس اور نادار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت کے اموال میں غرباء و مساکین کا بھی حصہ رکھا ہے، اور صدقہ فطر اس حق کو ادا کرنے کی ایک عملی شکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان مقاصد کی نشاندہی بایں الفاظ فرمائی ہے: ’’صدقہ فطر روزے داروں کے لیے فحش گوئی اور لغویات سے پاکیزگی کا باعث اور غرباء کے لیے خوراک کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1609)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1473
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1512
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1512
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1512
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
اور ابوعمرو نے بیان کیا کہ عمر ‘ علی ‘ ابن عمر ‘ جابر ‘ عائشہ ‘ طاؤس ‘ عطاء اور ابن سیرین ؓ کا خیال یہ تھا کہ یتیم کے مال سے بھی زکوٰۃ دی جائے گی۔ اور زہری دیوانے کے مال سے زکوٰۃ نکالنے کے قائل تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر صدقہ فطرایک صاع جوَیا ایک صاع کھجور فرض کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صدقہ فطر ادا کرنے میں صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے جس کے پاس عید کے دن اپنے اہل و عیال کی خوراک سے اتنا غلہ زائد موجود ہو کہ وہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ادا کر سکے۔ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ زکاۃ میں نصاب کی ملکیت کا اعتبار نہیں بلکہ ہر اس انسان پر واجب ہے جو عید کی رات اور دن اپنی خوراک سے ایک صاع زائد غلہ رکھتا ہو، یہی جمہور کا قول ہے۔ (الجامع للاختیارات الفقیھیة :408/1۔412) اس حدیث میں ایک صاع بطور فطرانہ ادا کرنے کا ذکر ہے لیکن حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں گندم سے دو مد، یعنی نصف صاع بطور فطرانہ ادا کرتے تھے۔ (مسندأحمد:350/6) علامہ ابن قیم ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور چند احادیث کے حوالے سے اسے مضبوط بھی کہا ہے۔ خوف طوالت کے پیش نظر ہم صرف زاد المعاد کے حوالے پر اکتفا کرتے ہیں۔ (زادالمعادلابن القیم، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في زکاةالفطر:19/2 ،20) علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: گندم سے نصف صاع فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ شیخ الاسلام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ (تمام المنة :387) علامہ ابن حزم نے متعدد احادیث و آثار ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گندم سے نصف صاع بھی دیا جا سکتا ہے۔ (محلیٰ ابن حزم:129/6) عرب میں دوسری اشیائے خوردنی کے مقابلے میں گندم قیمتی ہوتی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبار کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عام دستیاب ہے، اس لیے ہمیں گندم سے ایک صاع ہی ادا کرنا چاہیے، البتہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے نصف صاع ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: دوران رمضان روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے ہی پر پابندی نہیں ہوتی بلکہ ہر عضو بالخصوص زبان پر کنٹرول بھی ضروری ہوتا ہے، تاہم احتیاط کے باوجود روزے دار سے کوتاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کی تلافی کے لیے صدقہ فطر کو کفارہ کی حیثیت دی گئی ہے۔ مسلم معاشرے میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے، کچھ لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں جبکہ بعض مفلس اور نادار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت کے اموال میں غرباء و مساکین کا بھی حصہ رکھا ہے، اور صدقہ فطر اس حق کو ادا کرنے کی ایک عملی شکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان مقاصد کی نشاندہی بایں الفاظ فرمائی ہے: ’’صدقہ فطر روزے داروں کے لیے فحش گوئی اور لغویات سے پاکیزگی کا باعث اور غرباء کے لیے خوراک کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1609)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے عبیداللہ عمری کے واسطے سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) has made Sadaqatul-Fitr obligatory, (and it was), either one Sa' of barley or one Sa' of dates (and its payment was obligatory) on young and old people, and on free men as well as on slaves.