Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To go for Hajj on a pack-saddle (of a camel))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1516.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے بھائی عبدالرحمٰن کوان کے ساتھ روانہ کیا تو حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کومقام تنعیم سے عمرہ کرایا اور انھیں اپنے پیچھے کجاوے پر ہی سوار کرلیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ حج کے لیے پالان باندھو کیونکہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔
تشریح:
(1) پچھلے باب میں یہ تھا کہ سواری کو حج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے،اس سے یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ حج میں تو عجزوانکسار ہونا چاہیے۔امام بخاری ؒ یہ باب لاکر بتانا چاہتے ہیں کہ اگر سواری پر سادہ کجاوہ ہوتو یہ عجزوانکسار کے خلاف نہیں۔ فخرو مباہات سے بچتے ہوئے سادگی اختیار کرنی چاہیے۔ تکلف سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عائشہ ؓ نے جب عمرہ کیا تو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ نے انھیں اپنے پیچھے پالان کی اضافی لکڑی پر ہی بٹھالیا اور عمرے کےلیے روانہ ہوگئے،ان کے لیے کوئی آرام دہ سواری تلاش نہیں کی گئی۔ اگرچہ آج کل ہوئی جہاز کے سفر بہت آرام دہ اور پرسکون ہوتے ہیں، تاہم ان حالات میں بھی سادگی کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے منی، عرفات اور مزدلفہ جانے کے لیے پیدل یا معمولی سواری کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ (3) حضرت عمر ؓ کے اثر کو مصنف عبدالرزاق میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ آپ جب جہاد سے واپس ہوتے تو مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے کہ تم اپنے گھوڑے سے ان کی زینیں اتار دو اور اونٹوں پر کجاوے باندھ لو تاکہ حج یا عمرہ کیا جائے، یہ سفر بھی جہاد کا حصہ ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق:7/5، طبعة ا لمکتب الإسلامي، بیروت) کیونکہ اس میں بھی تکلیف اور بدنی مشقت ہوتی ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سفر میں سادگی اختیار کی جائے، تکلفات اور زیب وزینت اختیار کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:480/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1477
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1516
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1516
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1516
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے بھائی عبدالرحمٰن کوان کے ساتھ روانہ کیا تو حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کومقام تنعیم سے عمرہ کرایا اور انھیں اپنے پیچھے کجاوے پر ہی سوار کرلیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ حج کے لیے پالان باندھو کیونکہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پچھلے باب میں یہ تھا کہ سواری کو حج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے،اس سے یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ حج میں تو عجزوانکسار ہونا چاہیے۔امام بخاری ؒ یہ باب لاکر بتانا چاہتے ہیں کہ اگر سواری پر سادہ کجاوہ ہوتو یہ عجزوانکسار کے خلاف نہیں۔ فخرو مباہات سے بچتے ہوئے سادگی اختیار کرنی چاہیے۔ تکلف سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عائشہ ؓ نے جب عمرہ کیا تو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ نے انھیں اپنے پیچھے پالان کی اضافی لکڑی پر ہی بٹھالیا اور عمرے کےلیے روانہ ہوگئے،ان کے لیے کوئی آرام دہ سواری تلاش نہیں کی گئی۔ اگرچہ آج کل ہوئی جہاز کے سفر بہت آرام دہ اور پرسکون ہوتے ہیں، تاہم ان حالات میں بھی سادگی کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے منی، عرفات اور مزدلفہ جانے کے لیے پیدل یا معمولی سواری کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ (3) حضرت عمر ؓ کے اثر کو مصنف عبدالرزاق میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ آپ جب جہاد سے واپس ہوتے تو مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے کہ تم اپنے گھوڑے سے ان کی زینیں اتار دو اور اونٹوں پر کجاوے باندھ لو تاکہ حج یا عمرہ کیا جائے، یہ سفر بھی جہاد کا حصہ ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق:7/5، طبعة ا لمکتب الإسلامي، بیروت) کیونکہ اس میں بھی تکلیف اور بدنی مشقت ہوتی ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سفر میں سادگی اختیار کی جائے، تکلفات اور زیب وزینت اختیار کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:480/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابان نے کہا ہم سے مالک بن دینار نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ ان کے بھائی عبدالرحمن کو بھیجا اور انہوں نے عائشہ ؓ کو تنعیم سے عمرہ کرایا او رپالان کی پچھلی لکڑی پر ان کو بٹھا لیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حج کے لئے پالا نیں باندھو کیونکہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) sent my brother, 'Abdur Rahman with me to Tan'im for the 'Umra, and he made me ride on the packsaddle (of a camel). 'Umar said, "Be ready to travel for Hajj as it (Hajj) is one of the two kind of Jihad".