Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Miqat for the people of Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1530.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات بنایا، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن منازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔ یہ مقامات ان لوگوں کے میقات ہیں جو وہاں کے باشندے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو حج و عمرہ کا ارادہ کرتے ہوئے ان مقامات سے گزریں۔ اور جو لوگ ان مقامات کے اندر کی جانب ہیں وہ جہاں سے چلیں وہیں سے احرام باندھیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام کی نیت کریں۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان مقامات کی تعیین فرمائی۔ (2) قرن کے نام سے دو مقام مشہور ہیں: نشیبی علاقے کو قرن منازل اور چڑھائی کے علاقے کو قرن ثعالب کہا جاتا ہے۔ قرن ثعالب میقات نہیں ہے۔ اسی طرح یلملم بھی ایک پہاڑ کا نام ہے جو مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر ہے لیکن جحفه کے مقام کو لوگوں نے ترک کر دیا ہے کیونکہ وہ وبائی امراض کی آماجگاہ ہے۔ جو وہاں پڑاؤ کرتا ہے اسے بخار چڑھ جاتا ہے، اس لیے لوگوں نے اس کے بالمقابل مقام رابغ کو میقات بنا لیا ہے۔ (فتح الباري:485/3) ذوالحلیفہ کو آج کل بئر علی کہا جاتا ہے۔ اس سے مکہ مکرمہ 198 میل دور ہے اور مدینہ سے دس میل آگے ہے۔ یہ میقات دیگر مواقیت سے مکہ جانے کے لیے بہت مسافت پر واقع ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1491
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1530
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1530
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1530
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات بنایا، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن منازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔ یہ مقامات ان لوگوں کے میقات ہیں جو وہاں کے باشندے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو حج و عمرہ کا ارادہ کرتے ہوئے ان مقامات سے گزریں۔ اور جو لوگ ان مقامات کے اندر کی جانب ہیں وہ جہاں سے چلیں وہیں سے احرام باندھیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام کی نیت کریں۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان مقامات کی تعیین فرمائی۔ (2) قرن کے نام سے دو مقام مشہور ہیں: نشیبی علاقے کو قرن منازل اور چڑھائی کے علاقے کو قرن ثعالب کہا جاتا ہے۔ قرن ثعالب میقات نہیں ہے۔ اسی طرح یلملم بھی ایک پہاڑ کا نام ہے جو مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر ہے لیکن جحفه کے مقام کو لوگوں نے ترک کر دیا ہے کیونکہ وہ وبائی امراض کی آماجگاہ ہے۔ جو وہاں پڑاؤ کرتا ہے اسے بخار چڑھ جاتا ہے، اس لیے لوگوں نے اس کے بالمقابل مقام رابغ کو میقات بنا لیا ہے۔ (فتح الباري:485/3) ذوالحلیفہ کو آج کل بئر علی کہا جاتا ہے۔ اس سے مکہ مکرمہ 198 میل دور ہے اور مدینہ سے دس میل آگے ہے۔ یہ میقات دیگر مواقیت سے مکہ جانے کے لیے بہت مسافت پر واقع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاوس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس ؓمانے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، شام والوں کے لئے حجفہ، نجدوالوں کے لئے قرن منازل او ریمن والوں کے لئے یلملم۔ یہ ان ملکوں کے باشندوں کے میقات ہیں اورتمام ان دوسرے مسلمانوں کے بھی جو ان ملکوں سے گزر کر آئیں اور حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں تو ( وہ احرام وہیں سے باندھیں ) جہاں سے سفر شروع کریں تا آنکہ مکہ کے لوگ احرام مکہ ہی سے باندھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) fixed Dhul-Hulaifa as the Miqat for the people of Medina, Al-Juhfa for the people of Sham, Qarn-ul-Manazil for the people of Najd, and Yalamlam for the people of Yemen; and these Mawaqit are for those living at those very places, and besides them for those whom come through them with the intention of performing Hajj and Umra; and whoever is living within these Mawaqit should assume lhram from where he starts, and the people of Makkah can assume Ihram from Makkah. ________