باب: عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Miqat for the people of ‘Iraq is Dhat-‘Irq)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1531.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔
تشریح:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے ذات عرق کو حضرت عمرؓ نے مقرر فرمایا تھا لیکن حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو مقرر فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1739) صحیح مسلم کی ایک روایت میں بھی اہل عراق کے لیے ذات عرق کے بطور میقات مقرر ہونے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2810 (1183)) ممکن ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس میقات کو مقرر کیا تھا، انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو یا اگر پہنچی ہے تو انہوں نے اسے ضعیف خیال کیا ہو۔ بہرحال راجح بات یہی ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی میقات مقرر فرمایا تھا اگرچہ آپ کے عہد مبارک میں عراق وغیرہ فتح نہیں ہوا تھا لیکن آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ دور دراز تک اسلامی حکومت ہو گی، اس لیے آپ نے پیش بندی کے طور پر اسی وقت ذاتِ عرق کو عراق کا میقات مقرر کر دیا۔ (فتح الباري:491/3) جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا وہ روایت صحیح نہیں۔ (ضعیف سنن أبي داود، حدیث:381)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1492
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1531
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1531
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1531
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے ذات عرق کو حضرت عمرؓ نے مقرر فرمایا تھا لیکن حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو مقرر فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1739) صحیح مسلم کی ایک روایت میں بھی اہل عراق کے لیے ذات عرق کے بطور میقات مقرر ہونے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2810 (1183)) ممکن ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس میقات کو مقرر کیا تھا، انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو یا اگر پہنچی ہے تو انہوں نے اسے ضعیف خیال کیا ہو۔ بہرحال راجح بات یہی ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی میقات مقرر فرمایا تھا اگرچہ آپ کے عہد مبارک میں عراق وغیرہ فتح نہیں ہوا تھا لیکن آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ دور دراز تک اسلامی حکومت ہو گی، اس لیے آپ نے پیش بندی کے طور پر اسی وقت ذاتِ عرق کو عراق کا میقات مقرر کر دیا۔ (فتح الباري:491/3) جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا وہ روایت صحیح نہیں۔ (ضعیف سنن أبي داود، حدیث:381)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ جب یہ دوشہر ( بصرہ اور کوفہ ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اورکہا کہ یا امیرالمومنین رسول اللہ ﷺ نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قراردی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہوگی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ پھرتم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کرلو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کردی۔
حدیث حاشیہ:
یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر ؓ کی روایت میں آنحضرت ﷺ سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔ بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔ میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔ پس حضرت عمر ؓ کا اجتہاد حدیث کے مطابق پڑا ( مولانا وحیدی الزماں ) اس بارے میں حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعه علیه الصحابة واستمر علیه العمل کان أولی بالاتباع۔یعنی حضرت عمر ؓ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): When these two towns (Basra and Kufa) were captured, the people went to 'Umar and said, "O the Chief of the faithful believers! The Prophet (ﷺ) fixed Qarn as the Miqat for the people of Najd, it is beyond our way and it is difficult for us to pass through it." He said, "Take as your Miqat a place situated opposite to Qarn on your usual way. So, he fixed Dhatu-Irq (as their Miqat)." ________