Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Talbiya is to be recited aloud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1548.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں نماز ظہر کی چاررکعات اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھیں اور میں نےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حج اور عمرہ دونوں کا بآواز بلند تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کے لیے تلبیہ اونچی آواز سے کہا جا سکتا ہے۔ جمہور کے نزدیک ایسا کرنا مستحب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جبرائیل ؑ نے مجھے بآواز بلند تلبیہ کہنے کا پیغام دیا کیونکہ یہ حج کا شعار ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:174/4) اسی طرح ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر بلند آواز سے تلبیہ کہتے تھے کہ ان کی آواز بیٹھ جاتی تھی۔ (المصنف لابن أبي شیبة:549/5) (2) امام ترمذی حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے افضل حج کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور جانوروں کو ذبح کرنا۔‘‘(جامع الترمذي، الحج، حدیث:827)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1507
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1548
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1548
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1548
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں نماز ظہر کی چاررکعات اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھیں اور میں نےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حج اور عمرہ دونوں کا بآواز بلند تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کے لیے تلبیہ اونچی آواز سے کہا جا سکتا ہے۔ جمہور کے نزدیک ایسا کرنا مستحب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جبرائیل ؑ نے مجھے بآواز بلند تلبیہ کہنے کا پیغام دیا کیونکہ یہ حج کا شعار ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:174/4) اسی طرح ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر بلند آواز سے تلبیہ کہتے تھے کہ ان کی آواز بیٹھ جاتی تھی۔ (المصنف لابن أبي شیبة:549/5) (2) امام ترمذی حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے افضل حج کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور جانوروں کو ذبح کرنا۔‘‘(جامع الترمذي، الحج، حدیث:827)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوایوب نے، ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز ظہر مدینہ منورہ میں چار رکعت پڑھی۔ لیکن نماز عصر ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھی۔ میں نے خود سنا کہ لوگ بلند آواز سے حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہہ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ لبیک پکار کر کہنا مستحب ہے، مگر یہ مردوں کے لئے ہے، عورتیں آہستہ کہیں۔ امام احمد نے مرفوعاً حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو لبیک پکار کر کہنے کا حکم دیا ہے۔ اب لبیک کہنا امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک سنت ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک بغیر لبیک کہے احرام پورا نہ ہوگا۔ آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حج قران کی نیت کرنے والے لبیك بحجة وعمرة پکار رہے تھے۔ پس قران والوں کوجو حج وعمرہ ہر دو ملا کر کرنا چاہتے ہوں وہ ایسے ہی لبیک پکاریں۔ اور خالی حج کرنے والے لبیك بحجة کہیں اور خالی عمرہ کرنے والے لبیك بعمرة کے الفاظ پکاریں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: فیه حجة للجمهور في استحباب رفع الأصوات بالتلبیة وقدروی مالك في الموطأ وأصحاب السنن وصححه الترمذي وابن خزیمة والحاکم من طریق خلاد بن السائب عن أبیه مرفوعا جاءني جبرئیل فأمرني أن آمر أصحابي یرفعون أصواتهم بالإ ہلال۔یعنی لبیک کے ساتھ آواز بلند کرنا مستحب ہے۔ مؤطا وغیرہ میں مرفوعاً مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اپنے اصحاب سے کہہ دیجئے کہ لبیک کے ساتھ آواز بلند کریں۔ پس اصحاب کرام اس قدر بلند آواز سے لبیک پکارا کرتے کہ پہاڑ گونجنے لگ جاتے لبیك اللهم کے معنی یا اللہ ! میں تیری عبادت پر قائم ہوں اور تیرے بلانے پر حاضر ہوا ہوں یا میرا اخلاص تیرے ہی لئے ہے، میں تیری طرف متوجہ ہوں۔ تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ لبیک اس دعوت کی قبولیت ہے جو تکمیل عمارت کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے ﴿وَأَذن فِي الناسِ بِالحجِ﴾ کی تعمیل میں پکاری تھی کہ لوگو! آؤ اللہ کا گھر بن گیا ہے پس اس آواز پر ہر حاجی لبیک پکارتا ہے کہ میں حاضر ہوگیا ہوں یا یہ کہ غلام حاضر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) offered four Rakat of the Zuhr prayer in Madinah and two Rakat of the 'Asr prayer in Dhul-Hulaifa and I heard them (the companions of the Prophet) reciting Talbiya together loudly to the extent of shouting.