باب: احرام باندھتے وقت جب جانور پر سوار ہونے لگے تو لبیک سے پہلے الحمداللہ، سبحان اللہ اللہ اکبر کہنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The praising and glorification of Allah and saying Takbir before Talbiya, while mounting animal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1551.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہرکی چار رکعات پڑھیں جبکہ ہم لوگ آپ کے ساتھ تھے، پھر ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعات پڑھ کر رات وہیں قیام فرمایا۔ صبح کے وقت وہیں سے سوار ہوئے، جب سواری میدان بیداء میں پہنچی تو آپ نےالحمدللہ، سبحان اللہ اور اللہ أکبرکہا۔ پھر آپ نے حج اور عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہا اور لوگوں نے بھی حج اور عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہا۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو (عمرے سے فراغت کے بعد) آپ نے لوگوں کو(احرام کھولنے کا) حکم دیا تو انھوں نے احرام کھول ڈالا یہاں تک کہ آٹھویں ذوالحجہ کا دن آگیا، پھر انھوں نے حج کااحرام باندھا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر کئی اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیے اور مدینہ منورہ میں (عیدالاضحیٰ کے موقع پر) آپ نے سینگوں والے دو خوبصورت مینڈھے قربان کیے۔ امام بخاری ؓ نے کہا کہ بعض نے اس حدیث کو ایوب سے، انھوں نے کسی آدمی سے، اس نے حضر ت انس ؓ سے روایت کیاہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ تلبیہ سے پہلے اللہ کی تسبیح و تحمید اور تکبیر کہنا مستحب ہے، نیز ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو تلبیہ کے بغیر صرف تسبیح و تحمید ہی کو کافی سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سوار ہو کر پہلے سبحان الله، الحمدلله اور الله أكبر کہا ہے۔ اس کے بعد تلبیہ ادا کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف تسبیح و تحمید کافی نہیں۔ (فتح الباري:519/3) (2) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی، پھر اپنی قربانی کا شعار کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ جب وہ میدان بیداء کی چڑھائی طے کرنے لگی تو آپ ﷺ نے تلبیہ کہا جبکہ سنن نسائی میں ہے کہ آپ ﷺ نے نماز ظہر میدان بیداء میں پڑھی پھر سوار ہوئے۔ ان مختلف روایات میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ آپ نے نماز ظہر ذوالحلیفہ کے آخری حصے اور بیداء کے ابتدائی حصے میں پڑھی تھی۔ (فتح الباري:519/3)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1510
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1551
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1551
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1551
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہرکی چار رکعات پڑھیں جبکہ ہم لوگ آپ کے ساتھ تھے، پھر ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعات پڑھ کر رات وہیں قیام فرمایا۔ صبح کے وقت وہیں سے سوار ہوئے، جب سواری میدان بیداء میں پہنچی تو آپ نےالحمدللہ، سبحان اللہ اور اللہ أکبرکہا۔ پھر آپ نے حج اور عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہا اور لوگوں نے بھی حج اور عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہا۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو (عمرے سے فراغت کے بعد) آپ نے لوگوں کو(احرام کھولنے کا) حکم دیا تو انھوں نے احرام کھول ڈالا یہاں تک کہ آٹھویں ذوالحجہ کا دن آگیا، پھر انھوں نے حج کااحرام باندھا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر کئی اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیے اور مدینہ منورہ میں (عیدالاضحیٰ کے موقع پر) آپ نے سینگوں والے دو خوبصورت مینڈھے قربان کیے۔ امام بخاری ؓ نے کہا کہ بعض نے اس حدیث کو ایوب سے، انھوں نے کسی آدمی سے، اس نے حضر ت انس ؓ سے روایت کیاہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ تلبیہ سے پہلے اللہ کی تسبیح و تحمید اور تکبیر کہنا مستحب ہے، نیز ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو تلبیہ کے بغیر صرف تسبیح و تحمید ہی کو کافی سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سوار ہو کر پہلے سبحان الله، الحمدلله اور الله أكبر کہا ہے۔ اس کے بعد تلبیہ ادا کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف تسبیح و تحمید کافی نہیں۔ (فتح الباري:519/3) (2) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی، پھر اپنی قربانی کا شعار کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ جب وہ میدان بیداء کی چڑھائی طے کرنے لگی تو آپ ﷺ نے تلبیہ کہا جبکہ سنن نسائی میں ہے کہ آپ ﷺ نے نماز ظہر میدان بیداء میں پڑھی پھر سوار ہوئے۔ ان مختلف روایات میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ آپ نے نماز ظہر ذوالحلیفہ کے آخری حصے اور بیداء کے ابتدائی حصے میں پڑھی تھی۔ (فتح الباري:519/3)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی او رذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت۔ آپ ﷺ رات کو وہیں رہے۔ صبح ہوئی تو مقام بیداء سے سواری پر بیٹھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی تسبیح اور تکبیر کہی۔ پھر حج اور عمرہ کے لئے ایک ساتھ احرام باندھا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا ( یعنی قران کیا ) جب ہم مکہ آئے تو آپ کے حکم سے ( جن لوگوں نے حج تمتع کا احرام باندھا تھا ان ) سب نے احرام کھول دیا۔ پھر آٹھویں تاریخ میں سب سے حج کا احرام باندھا۔ انہو ں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کھڑے ہو کر بہت سے اونٹ نحر کئے۔ حضور اکر م ﷺ نے ( عید الاضحی کے دن ) مدینہ میں بھی دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے تھے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری نے کہا کہ بعض لوگ اس حدیث کو یوں روایت کرتے ہیں ایوب سے، انہوں نے ایک شخص سے، انہوں نے انس ؓ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) offered four Rakat of Zuhr prayer at Madinah and we were in his company, and two Rakat of the Asr prayer at Dhul-Hulaifa and then passed the night there till it was dawn; then he rode, and when he reached Al-Baida', he praised and glorified Allah and said Takbir (i.e. Alhamdu-lillah and Subhanallah(1) and Allahu-Akbar). Then he and the people along with him recited Talbiya with the intention of performing Hajj and Umra. When we reached (Makkah) he ordered us to finish the lhram (after performing the Umra) (only those who had no Hadi (animal for sacrifice) with them were asked to do so) till the day of Tarwiya that is 8th Dhul-Hijja when they assumed Ihram for Hajj. The Prophet (ﷺ) sacrificed many camels (slaughtering them) with his own hands while standing. While Allah's Apostle (ﷺ) was in Madinah he sacrificed two horned rams black and white in color in the Name of Allah." ________