باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Hajj-at-Tamattu', Hajj-al-Qiran, and Hajj-al-Ifrad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1567.
حضرت ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا تو لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے تمتع ہی کا حکم دیا۔ اسکے بعد میں نے خواب میں دیکھا گویا ایک آدمی مجھے کہہ رہا ہے کہ تمہارا حج مبرور اور عمرہ مقبول ہے۔ میں نے اس خواب کا تذکرہ حضرت ابن عباس ؓ سے کیا تو انھوں نےفرمایا کہ یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے، نیز مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پاس رہو میں اپنے مال میں سے تمہارے لیے کچھ حصہ مقرر کردوں گا۔ راوی حدیث شعبہ نے کہا: میں نے ابو جمرہ سے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایسا کیوں فرمایا؟ انھوں نے کہا: اس خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھاتھا۔
تشریح:
(1) حدیث میں مذکور واقعہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دور حکومت میں پیش آیا۔ (2) حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ حج تمتع سے لوگوں کو منع کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ حج تمتع کسی مجبوری کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کرنا صحیح نہیں، لیکن ان کا یہ موقف جمہور اہل علم کے خلاف ہے۔ جب ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اللہ أکبر کہا اور فرمایا: ایسا کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ پھر ابو جمرہ بیت اللہ گئے اور طواف کیا، انہیں وہیں نیند آ گئی تو خواب میں حج تمتع کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ خواب میں آنے والے نے کہا: آپ کا حج تمتع قبول ہوا۔ (فتح الباري:542/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1526
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1567
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1567
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1567
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج قران، حج افراد۔ ٭ حج تمتع: اس سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا، پھر عمرہ کر کے احرام کھول دینا اور غیر محرم ہی رہنا حتی کہ آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام باندھنا۔ اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔ ٭ حج قِران: اس سے مراد میقات سے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا اور سعی کرنے کے بعد احرام نہ کھولنا بلکہ حالت احرام ہی میں ایام حج کا انتظار کرنا اور اسی احرام سے حج مکمل کرنا۔ اس میں مسنون یہ ہے کہ قربانی ساتھ لے کر جائے۔ ٭ حج افراد: میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سرانجام دینا حج افراد کہلاتا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں۔ میقات سے صرف عمرے کے ارادے سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنا، عمرہ مفردہ کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہر قسم کی الگ نیت کرنا ضروری ہے، مبہم نیت کافی نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم حج کی نیت کی جا سکتی ہے، ان کے جواز پر اجماع ہے، البتہ حج تمتع افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قِران کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھا: "اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔" (مسنداحمد:3/147) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل عمل ہی کی تمنا کر سکتے ہیں، نیز اس میں سہولت بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث میں حج کی تینوں اقسام کو بیان کیا ہے۔
حضرت ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا تو لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے تمتع ہی کا حکم دیا۔ اسکے بعد میں نے خواب میں دیکھا گویا ایک آدمی مجھے کہہ رہا ہے کہ تمہارا حج مبرور اور عمرہ مقبول ہے۔ میں نے اس خواب کا تذکرہ حضرت ابن عباس ؓ سے کیا تو انھوں نےفرمایا کہ یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے، نیز مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پاس رہو میں اپنے مال میں سے تمہارے لیے کچھ حصہ مقرر کردوں گا۔ راوی حدیث شعبہ نے کہا: میں نے ابو جمرہ سے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایسا کیوں فرمایا؟ انھوں نے کہا: اس خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھاتھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکور واقعہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دور حکومت میں پیش آیا۔ (2) حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ حج تمتع سے لوگوں کو منع کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ حج تمتع کسی مجبوری کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کرنا صحیح نہیں، لیکن ان کا یہ موقف جمہور اہل علم کے خلاف ہے۔ جب ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اللہ أکبر کہا اور فرمایا: ایسا کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ پھر ابو جمرہ بیت اللہ گئے اور طواف کیا، انہیں وہیں نیند آ گئی تو خواب میں حج تمتع کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ خواب میں آنے والے نے کہا: آپ کا حج تمتع قبول ہوا۔ (فتح الباري:542/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو جمرہ نصربن عمران ضبعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اس لیے میں نے ابن عباس ؓ سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے تمتع کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے ”حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی قبول ہوا“ میں نے یہ خواب ابن عباس ؓ کو سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر، میں اپنے پاس سے تمہارے لیے کچھ مقرر کرکے دیا کروں گا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے ( ابو جمرہ سے ) پوچھا کہ ابن عباس ؓ نے یہ کیوں کیا تھا؟ ( یعنی مال کس بات پر دینے کے لیے کہا ) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کو ابو جمرہ کا یہ خواب بہت بھلا معلوم ہوا کیونکہ انہوں نے جو فتویٰ دیا تھا اس کی صحت اس سے نکلی۔ خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ مگر نیک لوگوں کے خواب جب شرعی امور کی تائید میں ہوں تو ان کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے حج تمتع کو رسول اللہ ﷺ کی سنت بتلایا اور سنت کے موافق جو کوئی کام کرے وہ ضرور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔ سنت کے موافق تھوڑی سی عبادت بھی خلاف سنت بڑی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علمائے دین سے منقول ہے کہ ادنیٰ سنت کی پیروی جیسے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا درجہ میں بڑے ثواب کی چیز ہے۔ یہ ساری نعمت آنحضرت ﷺ کی کفش برداری کی وجہ سے ملتی ہے۔ پروردگار کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں۔ اس کو یہی پسند ہے کہ اس کے حبیب ﷺ کی چال ڈھال اختیار کی جائے۔ حافظ ؒ فرماتے ہیں: وَيُؤْخَذُ مِنْهُ إِكْرَامُ مَنْ أَخْبَرَ الْمَرْءَ بِمَا يَسُرُّهُ وَفَرَحُ الْعَالِمِ بِمُوَافَقَتِهِ الْحَقَّ وَالِاسْتِئْنَاسُ بِالرُّؤْيَا لِمُوَافَقَةِ الدَّلِيلِ الشَّرْعِيِّ وَعَرْضُ الرُّؤْيَا عَلَى الْعَالِمِ وَالتَّكْبِيرُ عِنْدَ الْمُسِرَّةِ وَالْعَمَلُ بِالْأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ وَالتَّنْبِيهُ عَلَى اخْتِلَافِ أَهْلِ الْعِلْمِ لِيُعْمَلَ بِالرَّاجِحِ مِنْهُ الْمُوَافِقِ لِلدَّلِيلِ۔ (فتح) یعنی اس سے یہ نکلا کہ اگر کوئی بھائی کسی کے پاس کوئی خوش کرنے والی خبر لائے تو وہ اس کا اکرام کرے اور یہ بھی کہ کسی عالم کی کوئی بات حق کے موافق پڑ جائے تو وہ خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ دلیل شرعی کے موافق کوئی خواب نظر آجائے تو اس سے دلی مسرت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ خواب کسی عالم کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ خوشی کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرناد رست ہے اور یہ بھی کہ ظاہر دلائل پر عمل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ اختلاف کے وقت اہل علم کو تنبیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو دلیل سے راجح ثابت ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Shu'ba (RA): Abu Jamra Nasr bin 'Imran Ad-Duba'i said, "I intended to perform Hajj-at-Tamattu' and the people advised me not to do so. I asked Ibn Abbas (RA) regarding it and he ordered me to perform Hajj-at-Tammatu'. Later I saw in a dream someone saying to me, 'Hajj-Mabrur (Hajj performed in accordance with the Prophet's tradition without committing sins and accepted by Allah) and an accepted 'Umra.' So I told that dream to Ibn Abbas (RA) . He said, 'This is the tradition of Abu-l-Qasim.' Then he said to me, 'Stay with me and I shall give you a portion of my property.' " I (Shu'ba) asked, "Why (did he invite you)?" He (Abu Jamra) said, "Because of the dream which I had seen." ________