Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Doing Ramal in Tawaf during Hajj and 'Umra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1605.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حجر اسود کو مخاطب کر کے فرمایا: میں یقیناً جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ کسی کو نقصان یا نفع نہیں دے سکتا۔ اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ نے تجھے بوسہ دیا تھا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ پھر انھوں نے حجراسود کو بوسہ دیا۔ اس کے بعد کہا: اب ہمیں رمل کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو ہم نے مشرکین کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے کیا تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ جو کام نبی ﷺ نے کیا ہے اسے ترک کرنا پسند نہیں کرتے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہر چیز سے مقدم ہے، خواہ اس کی علت ہمارے دماغ میں آئے یا نہ آئے ہمیں اسے عمل میں لانا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرت سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ وہ بہت پابند شریعت اور متبع سنت تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حجراسود کو بوسہ دیا جاتا ہے اور بظاہر اس کا کوئی سبب نہیں تو اپنی رائے ترک کر دی اور پتھر کو بوسہ دے کر اتباع سنت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ رمل کے متعلق بھی انہوں نے فرمایا کہ اب اگرچہ اس کا سبب ختم ہو چکا ہے، تاہم اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ اسے عمل میں لایا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: اب رمل اور کندھوں کو ننگا کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ پھر فرمانے لگے: ممکن ہے کہ اس کی حکمت پر میں مطلع نہ ہو سکا ہوں، پھر انہوں نے رمل کیا۔ اس میں یہی حکمت کافی ہے کہ یہ عمل ایک یادگار کے طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت و قوت اور شان و شوکت سے ہمکنار کیا تھا، یعنی اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ (فتح الباري:395/3) (2) رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رمل کیا، حالانکہ اس وقت مشرکین کو اپنی طاقت دکھانا مقصود نہیں تھا۔ اس بنا پر سبب ہو یا نہ ہو رمل کی حیثیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1564
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1605
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1605
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1605
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حجر اسود کو مخاطب کر کے فرمایا: میں یقیناً جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ کسی کو نقصان یا نفع نہیں دے سکتا۔ اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ نے تجھے بوسہ دیا تھا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ پھر انھوں نے حجراسود کو بوسہ دیا۔ اس کے بعد کہا: اب ہمیں رمل کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو ہم نے مشرکین کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے کیا تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ جو کام نبی ﷺ نے کیا ہے اسے ترک کرنا پسند نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہر چیز سے مقدم ہے، خواہ اس کی علت ہمارے دماغ میں آئے یا نہ آئے ہمیں اسے عمل میں لانا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرت سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ وہ بہت پابند شریعت اور متبع سنت تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حجراسود کو بوسہ دیا جاتا ہے اور بظاہر اس کا کوئی سبب نہیں تو اپنی رائے ترک کر دی اور پتھر کو بوسہ دے کر اتباع سنت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ رمل کے متعلق بھی انہوں نے فرمایا کہ اب اگرچہ اس کا سبب ختم ہو چکا ہے، تاہم اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ اسے عمل میں لایا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: اب رمل اور کندھوں کو ننگا کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ پھر فرمانے لگے: ممکن ہے کہ اس کی حکمت پر میں مطلع نہ ہو سکا ہوں، پھر انہوں نے رمل کیا۔ اس میں یہی حکمت کافی ہے کہ یہ عمل ایک یادگار کے طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت و قوت اور شان و شوکت سے ہمکنار کیا تھا، یعنی اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ (فتح الباري:395/3) (2) رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رمل کیا، حالانکہ اس وقت مشرکین کو اپنی طاقت دکھانا مقصود نہیں تھا۔ اس بنا پر سبب ہو یا نہ ہو رمل کی حیثیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبردی، کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبردی، انہیں ان کے والد نے کہ عمر بن خطاب ؓ نے حجر اسود کو خطاب کرکے فرمایا۔ بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتاہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا اور اب ہمیں رمل کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کردیا۔ پھر فرمایا جو عمل رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرؓ نے پہلے رمل کی علت اور سبب پر خیال کرکے اس کو چھوڑ دیناچاہا۔ پھر ان کو خیال آیا کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فعل کیا تھا۔ شاید اس میں اور کوئی حکمت ہو اور آپ کی پیروی ضروری ہے۔ اس لیے اس کو جاری رکھا ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Aslam from his father who said: "Umar bin Al-Khattab (RA) addressed the Corner (Black Stone) saying, 'By Allah! I know that you are a stone and can neither benefit nor harm. Had I not seen the Prophet (ﷺ) touching (and kissing) you, I would never have touched (and kissed) you.' Then he kissed it and said, 'There is no reason for us to do Ramal (in Tawaf) except that we wanted to show off before the pagans, and now Allah has destroyed them.' 'Umar added, '(Nevertheless), the Prophet (ﷺ) did that and we do not want to leave it (i.e. Ramal).' ________