باب : اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے جائے
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Whoever drove the Budn alongwith him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1692.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، حضرت عائشہ ؓ نے انھیں بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا۔ نیز لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ ہی کیا تھا۔ انھوں نے بالکل اسی طرح خبر دی جیسا کہ حضرت سالم نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے متعلق مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے "حِل" (حدود حرم کے باہر) سے اپنے ساتھ لائے۔ اگر حرم سے خریدے تو حج کرنے کے لیے جب عرفہ جائے تو بہتر ہے کہ اسے ساتھ لے جائے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو اس لیے "حِل" سے قربانی ساتھ لائے تھے کہ آپ کا گھر حدود حرم سے باہر تھا، اس لیے حل سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل نہیں۔ بہرحال میقات اور بعید مقامات سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل ہے جسے آج اکثر لوگوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ (فتح الباري:682/3) (2) اس مقام پر لفظ تمتع سے مراد حج قران ہے کہ انہوں نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرے کا فائدہ حاصل کر لیا۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے پہلے حج کا احرام باندھا تھا، پھر عمرے کو اس میں شریک کر لیا۔ لغت اور معنی کے اعتبار سے قارن پر متمتع کا اطلاق جائز ہے کیونکہ اس میں ایک میقات، ایک احرام اور ایک جیسے اعمال حج سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کھول کر بیوی سے تمتع کیا جا سکتا ہے اور حج قران میں عمرے کو حج کے ساتھ ایک ہی احرام میں جمع کرنے کا فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری احادیث کے پیش نظر یہ تاویل انتہائی ناگزیر ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1645
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1692
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1692
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1692
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، حضرت عائشہ ؓ نے انھیں بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا۔ نیز لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ ہی کیا تھا۔ انھوں نے بالکل اسی طرح خبر دی جیسا کہ حضرت سالم نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے متعلق مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے "حِل" (حدود حرم کے باہر) سے اپنے ساتھ لائے۔ اگر حرم سے خریدے تو حج کرنے کے لیے جب عرفہ جائے تو بہتر ہے کہ اسے ساتھ لے جائے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو اس لیے "حِل" سے قربانی ساتھ لائے تھے کہ آپ کا گھر حدود حرم سے باہر تھا، اس لیے حل سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل نہیں۔ بہرحال میقات اور بعید مقامات سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل ہے جسے آج اکثر لوگوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ (فتح الباري:682/3) (2) اس مقام پر لفظ تمتع سے مراد حج قران ہے کہ انہوں نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرے کا فائدہ حاصل کر لیا۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے پہلے حج کا احرام باندھا تھا، پھر عمرے کو اس میں شریک کر لیا۔ لغت اور معنی کے اعتبار سے قارن پر متمتع کا اطلاق جائز ہے کیونکہ اس میں ایک میقات، ایک احرام اور ایک جیسے اعمال حج سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کھول کر بیوی سے تمتع کیا جا سکتا ہے اور حج قران میں عمرے کو حج کے ساتھ ایک ہی احرام میں جمع کرنے کا فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری احادیث کے پیش نظر یہ تاویل انتہائی ناگزیر ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عروہ سے روایت ہے کہ عائشہ ؓ نے انہیں آنحضرت ﷺ کے حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کی خبر دی کہ اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے مجھے سالم نے ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے خبر دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
نووی ؒ نے کہا کہ تمتع سے یہاں قران مراد ہے، ہوا یہ کہ پہلے آپ ﷺ نے صر ف حج کا احرام باندھا تھا پھر عمرہ کو اس میں شریک کرلیا اور قران کو بھی تمتع کہتے ہیں۔ ( وحیدی ) اسی حدیث میں آنحضرت ﷺ کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں رمل کا ذکر بھی آیا ہے۔ یعنی اکڑ کر مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے چلنا۔ یہ طواف کے پہلے تین پھیروں میں کیا اور باقی چار میں معمولی چال سے چلے، یہ اس واسطے کیا کہ مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کی نسبت یہ خیال کیا تھا کہ مدینہ کے بخار سے وہ ناتواں ہو گئے ہیں تو پہلی بار یہ فعل ان کا خیال غلط کرنے کے لیے کیا گیا تھا، پھر ہمیشہ یہی سنت قائم رہی۔ ( وحیدی ) حج میں ایسے بہت سے تاریخی یادگاری امو رہیں جو پچھلے بزرگوں کی یادگاریں ہیں اور اسی لیے ان کو ارکان حج سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں، رمل کا عمل بھی ایسا ہی تاریخی عمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
" 'Aishah informed me about the Hajj and 'Umra (together) of the Prophet (ﷺ) and so did the people who were with him (during the Hajj and 'Umra) and narration similar to the narration of the Ibn 'Umar (previous hadith)