Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To shave the head and to have the head-hair cut short on finishing the Ihram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1727.
حضرت ابن عمر ؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ !سر منڈوانے والوں پر مہربانی فرما۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !بال کتروانے والوں پر بھی۔ آپ نے پھر فرمایا: ’’اے اللہ!سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! بال کتروانے والوں پر بھی تب آپ نے فرمایا : ’’بال کتروانے والوں پر بھی رحم فرما۔‘‘ لیث نےکہا: ہم سے نافع نے ’’اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کر‘‘ کے کلمات کا ذکر ایک یا دو مرتبہ فرمایا۔ عبید اللہ نے کہا: مجھ سے نافع نے بیان کیا اور چوتھی بار’’بال کتروانے والوں‘‘ کا ذکر کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1679
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1727
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1727
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1727
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ !سر منڈوانے والوں پر مہربانی فرما۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !بال کتروانے والوں پر بھی۔ آپ نے پھر فرمایا: ’’اے اللہ!سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! بال کتروانے والوں پر بھی تب آپ نے فرمایا : ’’بال کتروانے والوں پر بھی رحم فرما۔‘‘ لیث نےکہا: ہم سے نافع نے ’’اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کر‘‘ کے کلمات کا ذکر ایک یا دو مرتبہ فرمایا۔ عبید اللہ نے کہا: مجھ سے نافع نے بیان کیا اور چوتھی بار’’بال کتروانے والوں‘‘ کا ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ ؓ نے عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ آنحضرت ﷺ نے اب بھی دعا کی اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ ؓ نے پھر عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ اب آپ ﷺ نے فرمایا اور کتروانے والوں پر بھی، لیث نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اللہ نے سر منڈوانے والوں پر رحم کیا، ایک یا دو مرتبہ، انہوں نے بیان کیا کہ عبید اللہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ چوتھی مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ کتروانے والوں پر بھی۔
حدیث حاشیہ:
یعنی لیث کو اس میں شک ہے کہ آپ ﷺ نے سر منڈانے والوں کے لیے ایک بار دعا کی یا دو بار، اور اکثر راویوں کا اتفاق امام مالک کی راویت پر ہے کہ آپ ﷺ نے سر منڈانے والوں کے لیے دو بار دعا کی اور تیسری بار کتروانے والوں کو بھی شریک کر لیا۔ عبید اللہ کی روایت میں ہے کہ چوتھی بار میں کتروانے والوں کو شریک کیا۔ بہرحال حدیث سے یہ نکلا کہ سر منڈانا بال کتروانے سے افضل ہے، امام مالک اور امام احمد کہتے ہیں کہ سارا سر منڈائے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک چوتھائی سر منڈانا کافی ہے اور امام ابویوسف کے نزدیک تین بال منڈانا کافی ہے۔ بعض شافعیہ نے ایک بال منڈانا بھی کافی سمجھا ہے اور عورتوں کو بال کترانا چاہئیے ان کو سر منڈانا منع ہے۔ ( وحیدی ) سر منڈانے یا بال کتروانے کا واقعہ حجۃ الوداع سے متعلق ہے اور حدیبیہ سے بھی جب کہ مکہ والوں نے آپ ﷺ کو عمرہ سے روک دیا تھا، آپ ﷺ نے میدان حدیبیہ ہی میں حلق اور قربانی کی اب بھی جو لوگ راستے میں حج عمرہ سے روک دئیے جاتے ہیں ان کے لیے یہی حکم ہے۔ حافظ علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وأما السبب في تكرير الدعاء للمحلقين في حجة الوداع فقال بن الأثير في النهاية كان أكثر من حج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يسق الهدي فلما أمرهم أن يفسخوا الحج إلى العمرة ثم يتحللوا منها ويحلقوا رؤوسهم شق عليهم ثم لما لم يكن لهم بد من الطاعة كان التقصير في أنفسهم أخف من الحلق ففعله أكثرهم فرجح النبي صلى الله عليه وسلم فعل من حلق لكونه أبين في امتثال الأمر انتهى( یعنی سر منڈاونے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت دعا فرمائی کیوں کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اکثر حاجی وہ تھے جو اپنے ساتھ ہدی لے کر نہیں آئے تھے پس جب آنحضرت ﷺ نے ان کو حج کے فسخ کرنے اور عمرہ کر لینے اور احرام کھول دینے اور سرمنڈوانے کا حکم فرمایا تو یہ امر ان پر بار گزرا پھر ان کے لیے امتثال امر بھی ضروری تھا اس لیے ان کو حلق سے تقصیر میں کچھ آسانی نظر آئی، پس اکثر نے یہی کیا۔ پس آنحضرت ﷺ نے سر منڈوانے والوں کے فعل کو ترجیح فرمائی اس لیے کہ یہ امتثال امر میں زیادہ ظاہر با ت تھی ) عربوں کی عادت بھی اکثر بالوں کو بڑھانے ان سے زینت حاصل کرنے کی تھی اور سرمنڈانے کا رواج ان میں کم تھا وہ بالوں کو عجمیوں کی شہرت کا ذریعہ بھی گردانتے اور ان کی نقل اپنے لیے باعث شہرت سمجھتے تھے۔ اس لیے ان میں سے اکثر سر منڈانے کو مکروہ جانتے اور بال کتروانے پر کفایت کرنا پسند کرتے تھے۔ حدیث بالا سے ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا جو بہتر سے بہتر کاموں کے لیے آمادہ ہوں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ امر مرجوح پر عمل کرنے والوں کے لیے بھی دعائے خیر کی درخواست کی جا سکتی ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ حلق کی جگہ تقصیر بھی کافی ہے مگر بہتر حلق ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Allah! Be merciful to those who have their head shaved." The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! And (invoke Allah for) those who get their hair cut short." The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Be merciful to those who have their head shaved." The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! And those who get their hair cut short." The Prophet (ﷺ) said (the third time), "And to those who get their hair cut short." Nafi' said that the Prophet (ﷺ) had said once or twice, "O Allah! Be merciful to those who get their head shaved," and on the fourth time he added, "And to those who have their hair cut short."