Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Rami of the Jimar with seven small stones)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن عمرؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا ہے
1747.
حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو میں نے کہا: ابو عبدالرحمان!کچھ لوگ تو اوپر ہی سے کھڑے ہوکررمی کرتے ہیں، توانھوں نے فرمایا: قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں!یہ اس شخص کے رمی کرنے کامقام ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ ﷺ۔
تشریح:
(1) جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب میں کھڑے ہو کر رمی کی جاتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1750) اور دوسرے جمرات کو اوپر کی جانب سے رمی کی جاتی ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرے کو اوپر کی جانب سے کنکریاں مارتے تھے۔ (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان جمرۂ عقبہ کے متعلق قائم کیا ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب سے کنکریاں مارتے تھے۔ (فتح الباري:732/3) (3) سائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔ (4) واضح رہے کہ رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ بائیں جانب اور عرفہ دائیں جانب ہو، اس طرح جمرۂ عقبہ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کرنے کے لیے اسی مقام پر انصار سے بیعت لی تھی۔ جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ اور بڑا شیطان بھی کہتے ہیں۔ (5) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے آخر میں بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن ولید نے سفیان ثوری سے، انہوں نے حضرت اعمش سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ یہ تعلیق ’’جامع سفیان ثوری‘‘ میں متصل سند سے بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري:732/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1699
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1747
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1747
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1747
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی حدیث: 1751 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو میں نے کہا: ابو عبدالرحمان!کچھ لوگ تو اوپر ہی سے کھڑے ہوکررمی کرتے ہیں، توانھوں نے فرمایا: قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں!یہ اس شخص کے رمی کرنے کامقام ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ ﷺ۔
حدیث حاشیہ:
(1) جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب میں کھڑے ہو کر رمی کی جاتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1750) اور دوسرے جمرات کو اوپر کی جانب سے رمی کی جاتی ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرے کو اوپر کی جانب سے کنکریاں مارتے تھے۔ (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان جمرۂ عقبہ کے متعلق قائم کیا ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب سے کنکریاں مارتے تھے۔ (فتح الباري:732/3) (3) سائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔ (4) واضح رہے کہ رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ بائیں جانب اور عرفہ دائیں جانب ہو، اس طرح جمرۂ عقبہ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کرنے کے لیے اسی مقام پر انصار سے بیعت لی تھی۔ جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ اور بڑا شیطان بھی کہتے ہیں۔ (5) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے آخر میں بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن ولید نے سفیان ثوری سے، انہوں نے حضرت اعمش سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ یہ تعلیق ’’جامع سفیان ثوری‘‘ میں متصل سند سے بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري:732/3)
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے اور ان سے عبدالرحمن بن زید نے بیان کیا کہ عبداللہ ؓ نے وادی کے نشیب (بطن وادی ) میں کھڑے ہو کر کنکری ماری تو میں نے کہا، اے ابوعبدالرحمن ! کچھ لوگ تو وادی کے بالائی علاقہ سے کنکریاں مارتے ہیں، اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی (بطن وادی ) ان کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (رمی کرتے وقت ) جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی ﷺ۔ عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ان سے سفیان ثوری نے اور ان سے اعمش نے یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Yazid (RA): 'Abdullah, did the Rami from the middle of the valley. So, I said, "O, Abu 'Abdur-Rahman! Some people do the Rami (of the Jamra) from above it (i.e. from the top of the valley)." He said, "By Him except whom none has the right to be worshipped, this is the place from where the one on whom Surat-al-Baqara was revealed (i.e. Allah's Apostle) (ﷺ) did the Rami."