Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Rami of the Jimar with seven small stones)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن عمرؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا ہے
1748.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، جب وہ جمرہ کبریٰ (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو انھوں نے کعبے کواپنی بائیں جانب اور منیٰ کو اپنی دائیں طرف کرلیا، پھر اسے سات کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ اس طرح اس شخصیت ﷺ نے کنکریاں ماریں تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر جمرے کو سات، سات کنکریاں ماری جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: سات یا چھ کنکریاں ماری جائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام بخاری کے نزدیک یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ اس روایت کو حضرت قتادہ سیدنا ابن عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں جبکہ قتادہ کا حضرت عبداللہ بن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (فتح الباري:733/3) (2) رمی جمرات میں یہ شرط ہے کہ ایک ایک کنکری ماری جائے اور ہر کنکری پر اللہ أکبر کہا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر پڑھتے تھے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ تمام کنکریاں ایک بار ہی مار دینا کافی ہے لیکن یہ سنت کے خلاف ہے اور رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:735/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1700
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1748
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1748
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1748
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی حدیث: 1751 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، جب وہ جمرہ کبریٰ (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو انھوں نے کعبے کواپنی بائیں جانب اور منیٰ کو اپنی دائیں طرف کرلیا، پھر اسے سات کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ اس طرح اس شخصیت ﷺ نے کنکریاں ماریں تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر جمرے کو سات، سات کنکریاں ماری جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: سات یا چھ کنکریاں ماری جائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام بخاری کے نزدیک یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ اس روایت کو حضرت قتادہ سیدنا ابن عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں جبکہ قتادہ کا حضرت عبداللہ بن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (فتح الباري:733/3) (2) رمی جمرات میں یہ شرط ہے کہ ایک ایک کنکری ماری جائے اور ہر کنکری پر اللہ أکبر کہا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر پڑھتے تھے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ تمام کنکریاں ایک بار ہی مار دینا کافی ہے لیکن یہ سنت کے خلاف ہے اور رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:735/3)
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نحعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ جمرہ کبریٰ کے پاس پہنچے تو کعبہ کو اپنے بائیں طرف کیا اور منیٰ کو دائیں طرف، پھر سات کنکریوں سے رمی کی اور فرمایا کہ جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی ﷺ انہوں نے بھی اسی طرح رمی کی تھی۔ (یعنی رسول اللہ ﷺ۔
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحبؒ فرماتے ہیں: و استدل بهذا الحدیث علی أشراط رمي الجمارات واحدة واحدة لقوله یکبر مع کل حصاة و قد قال صلی اللہ علیه وسلم خذوا عني مناسککم و خالف في ذلك عطاء و صاحبه أبوحنیفة فقالا لو رمی السبع دفعة واحدة أجزاہ الخ (فتح) یعنی اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ رمی جمرات میں شرط یہ ہے کہ ایک ایک کنکری الگ الگ پھینکی جانے کے بعد ہر کنکری پر تکبیر کہی جائے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے مناسک حج سیکھو اور آپ ﷺ کا یہی طریقہ تھا کہ آپ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر کہا کرتے تھے۔ مگر عطا اور آپ کے صاحب امام ابوحنیفہ ؒ نے اس کے خلاف کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ سب کنکریوں کا ایک دفعہ ہی مار دینا کافی ہے۔ ( مگر یہ قول درست نہیں ہے )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Yazid (RA): When 'Abdullah, reached the big Jamra (i.e. Jamrat-ul-Aqabah) he kept the Ka’bah on the left side and Mina on his right side and threw seven pebbles (at the Jamra) and said, "The one on whom Surat-al-Baqara was revealed (i.e. the Prophet) had done the Rami similarly."